ہم تخیل میں تیری یاد کو جب ضم کرتے
ہم تخیل میں تیری یاد کو جب ضم کرتےاشک بہتے ہوئے عارض کو میرے نم کرتے
راہ راست
آسمان سے اتر کر سحر ہوا میں گھل رہی تھی۔ ستارے تعداد میں پہلے سے زیادہ اور معمول سے کئی گنا روشن تھے۔ سحر شدہ ہوا آج سے پہلے کبھی اتنی خنک محسوس نہ ہوئی تھی۔ آسمان بالکل سیاہ تھا اور دیکھنے پہ یوں محسوس ہوتا جیسے ستارے آسمان سے نیچے اتر کر آداب بجالانے آئے ہوں، کسی کو اپنے ساتھ بلندی پے لے جانے، کسی قبول ہوئی ریاضت کے بدلے نوید پہنچانے۔ فجر کے تھوڑے وقفے بعد ہی بجتے فون کی گھنٹی نے سحر میں ڈوبے د
دکھی پھرتا ہے جہاں سارا
بیوی نے شوہر کو الوداع کہا۔ جہاز نے اڑان بھری۔طرح طرح کے خیال آنے لگے حوصلے بلند تھے وہ بھی صرف اس لئے کہ نوکری مل گئی تھی۔ مگر وطن سے دور بہت دور۔ تنخواہ ڈالروں میں تھی۔ ڈالر کی اونچی اڑان تھی اس لئے اچھی تنخواہ کی خوشی تھی۔ وقت کا کام گزرنا ہوتا ہے سو وہ گزرتارہا۔
دوست
وہ گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں ٹھہری آسمان کو تک رہی تھی جس پر سے اب نیلاہٹ چھٹ رہی تھی ۔اس نے چہرے کے گرد سکارف اوڑھ رکھا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ نماز پڑھ کے اٹھی ہے۔ عمر سے وہ اکیس سال کی معلوم ہوتی ہے۔ مسلسل آسمان کو تکتے ہوئے یہی سوچے جا رہی تھی کہ وہ کس قدر تنہا ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک کوئی بھی تو اسکا دوست نہیں رہا تھا۔
کرونا اور تعلیم کا بین الاقوامی منظرنامہ
اور اللہ نے سکھا دیے آدم کو تمام کے نام ۔ البقرہ ۳۳قرآن مجید کی یہ آیت تعلیم و تعلم اور علم کے حصول کی طرف انسان کو دعوت دیتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو وہ تمام علوم اور ان کے نام سکھائے آئے جن کی وسعت اور ماہیت ہمارے محدود علم کے بس کی بات ہی نہیں۔
آرزو
یہ آرزو تھی کہ
آگہی سفرِ دوراں
"انسان چھپی ہوئی حقیقتوں سے لا علم ہی رہے تو اچھا ہے۔آگہی انسان کو بہت مشکل میں ڈال دیتی ہے۔لا علمی شاید اسی لئے نعمت ہے " رات کے آخری پہر چھت پر بیٹھی وہ دونوں اس نئے موضوع پر محو گفتگو تھیں۔ مہیب سناٹے میں جانوروں کی آوازیں اور ہوا کا شور عجیب ہیبت بکھیر رہا تھا ۔
اے بندگان رب ! کیا توبہ کا وقت ابھی نہیں آیا ؟
کائنات کا نظام تھم گیا ہے زمین،ہواؤں اور فضاؤں کی حرکت بند ہو گئی ہے ہر چیز ساقط وجامد ہے ریلوے ،بحری جہاز ،فضائی جہاز ،بس سب بند ہو گئے ہیں کاروبار زندگی خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سب رک گیا ہے ہر قسم کی نقل و حرکت تقریباََ بند ہے ہر انسان کواپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیںکوئی کسی سے ملنے مصافحہ کرنے اور گلے لگنے کا تو سوال ہی نہیں ہے
اسی کا نام محبت ہے
اک دن یو نہی چلتے چلتےندی کنارے جا پہنچے
پانچ" میری آنکھ کے تارے مَحبت "چار" سے"
پانچ" میری آنکھ کے تارے مَحبت "چار" سے"سِلسِلے ملتے ہیں میرے اِک مُقدَّس غار سے
اک معصوم ننھا بچہ
اک معصوم ننھا سا بچہفٹ پاتھ پہ بیٹھا سوچ رہا ہے
۔۔۔ ابر صحرا KFUEIT
فرید صاحب کی دھرتی پر اک صحرا تھا ویران پڑا۔تھی برسوں سے پیاسی زمیں اور بنجر تھا میدان بڑا۔