آرزو
محمد اسماعیل سومرو
ایم فل ایجوکیشن
یہ آرزو تھی کہ
خزاں رسیدہ پتوں
پہ چل کر
انہی پتوں کے شور سے
بہار من کی خامشی کو آواز دوں
یہ آرزو تھی کہ
ساحل کی گیلی ریت پر
کسی کا ہاتھ پکڑ کر
دل کی بنجر کیاریوں کو سیراب کروں
یہ آرزو تھی کہ
چمکتے فرش اور جگمگاتی بالکونیوں سے
کوئی غزل کوئی شعر گنگناتا ہوا
تیزی سے گزر جاؤں
یہ آرزو تھی کہ
اجنبی چہروں کے ہجوم میں
شناسا لوگوں کے نقوش ڈھونڈتا رہوں
یہ آرزو تھی کہ
غموں کی چادر کو اوڑھ کر
حسین یادوں کی انگیٹھی پر
دیر تک سلگتا رہوں۔
یہ آرزو تھی کہ۔۔
روشن آنکھوں اور روشن دماغ کے
پیچ وخم میں الجھتا سلجھتا رہوں
یہ آرزو تھی کہ
نئے کپڑے پہن کر
یوں ہی بے سبب گنگناتا ہوا
بند کھڑکی کو دیکھے بنا
ہی آگے گزر جاؤں
اور اک یہ بھی آرزو تھی کہ
وہ میری ہر آرزو کی تائید کرتے