Urdu Content

سوشل میڈیا کا جادو۔۔۔ توجہ طلب معاملات

سوشل میڈیا کا جادو۔۔۔ توجہ طلب معاملات

گئے زمانے کی بات ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور ہر دکھ سکھ میں بے لوث ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ ہر گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں روزانہ شام کو لوگ بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے سے دکھ سکھ کی باتیں کرتے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔چوپال میں کبھی تو حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے اور کبھی قصے کہانیوں سے دل بہلایا جاتا۔

وائس آف کامرس

وائس آف کامرس

کاروبار کا آغاز پیدائش آدم سے ہے اور روز جزا ( قیامت) تک اپنی جدت کے ساتھ جاری رہے گا انسانیت  پتھر کی غاروں، جھونپڑیوں میں رہنے سے لے کر آج آسائشوں والے گھروں، محلات میں تمام لوازمات کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارنے میں مصروف ہے اچھے سے بہتر اور بہتر سے بہترین میں لگی اقوام عالم قدرت کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کر کہ ان کو انسانیت کے تابع کرنے میں لگی ہے۔

بچوں کی تربیت  و اصلاح میں والدین کا کردار

بچوں کی تربیت  و اصلاح میں والدین کا کردار

صبح چھ بجے جلدی میں دو تین سال کے بچوں سے لے کر تمام سکول کالج جانے والے بچوں کو جگایا جاتا ہے۔جنہیں فجر کی نماز کے لئے جگانے کا رواج ہی نہیں رہا۔اٹھنے کے بعد گھر کے کسی بڑے چھوٹے کو سلام دعا کرنے کی تلقین ہی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی بچے کو اٹھا کر ماں باپ خود دعا سلام کرتے ہیں۔

نسل نو میں بڑھتی سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز کی لت

نسل نو میں بڑھتی سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز کی لت

کہتے ہیں انسان کو ہمیشہ فٹ اور توانا رہنے کے لیے اپنی روزمرہ کی عادات میں ورزش کو معمول بنانا چاہیے تاکہ انسان اپنی عمر کے جس حصہ میں بھی ہو ہمیشہ چست اور ہشاش بشاش رہے۔ کوئی شک نہیں کہ ورزش سے ہم اپنے جسم کو نا صرف بیدار رکھتے ہیں بلکہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہوئے بے شمار فوائد بھی حاصل کرتے ہیں ۔

عصر حاضر میں روحانیت

عصر حاضر میں روحانیت

کائنات کی پیدائش و ارتقاء ایک غور طلب مگر پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جس پر صدیوں سے انسان غور و فکر اور جستجو کئے جارہا ہے ۔ اس جستجو کے نتیجے میں علم و ادب کے کئ ادوار نسلِ انسانی پر وا ہوئے کیونکہ فطری طور پر انسان کی قوتِ علمی اسکو دوسری مخلوقات پر فوقیت دیتی ہے۔

سرائیکی زبان کے رومی "حضرت خواجہ غلام فرید"

سرائیکی زبان کے رومی "حضرت خواجہ غلام فرید"

برصغیر کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 25نومبر 1845کو (بمطابق 5ربیع الثانی )چاچڑاں شریف ریاست بہاولپور میں خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی کے ہاں پیدا ہوئے ۔آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہو ئے تھے ۔آپ کے خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے کوٹ مٹھن کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا اور آپ کے اجداد سے پہلے وہاں سکونت اختیار کی پھر چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے ۔آ پ کی پیدائش

حِرص۔۔۔

حِرص۔۔۔

”اماں یہ مرچکا ہے تم اس کو اب لے کر آرہی ہو"۔" نہ ڈاکٹر صاحبہ! ایہہ ساہ گھِندا پیا اے۔ تُساں ایکوں ڈیکھو تاں سہی"۔

دہرا معیار کیوں؟

دہرا معیار کیوں؟

ہماری دنیا کے "سوکالڈ"تہذیب یافتہ لوگوں کو تہذیب کا پرچار کرتے دیکھ میں نے ایک بات محسوس کی ہے کہ ایسے لوگ بڑے منافق ہوتے ہیں ۔ہم صرف کہانیوں کی حد تک زندگی کو آئیڈیل دیکھنا چاہتے ہیں  لیکن حقیقی زندگی میں اگر کوئی ہمیں یہ موقع دے تو ہم اسے پہلی فرصت میں "رد"  کر دیتے ہیں ۔

ہوں گر ہزاروں جانیں تو بھی کروں تجھ پہ نثا ر

ہوں گر ہزاروں جانیں تو بھی کروں تجھ پہ نثا ر

"دادا جان! مجھے دعا کرنا نہیں آتا"۔۔۔ جائے نماز پہ چپک کے بیٹھے سات سال کے بچے نے معصومیت سے کہا۔"چلو اس میں کیا مشکل ہے۔ آج سے تم اللہ سے یہ دعا مانگا کرو "یا اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور(لوگوں سے) بے نیاز ہونے کا سوال کرتا ہوں"۔

سیاست زندگی ہے!

سیاست زندگی ہے!

ایک باشعور ترقی یافتہ معاشرے میں اگر اس بات کا سروے کرایا جائے تو ہر شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ" عوام کے حق میں بدترین جمہوریت بھی بہتر ہے "۔لیکن اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑے ادارے"یونیورسٹی" کے طلباء جو کہ باقیوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور ہوتے ہیں میں یہ سروے کرائیں تو 90فیصد لوگ اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔

ذوق مطالعہ کی ضرورت

ذوق مطالعہ کی ضرورت

سترہ جون 2020 کو گوگل نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان میں کرونا کے دنوں ای مارکیٹ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں کھانوں کی ترکیب ورزش کے طریقے شامل ہیں اور سعید بک بینک اسلام آباد کے مالک احمد سعید نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کرونا کے دوران پاکستان میں 75 فیصد کتابیں پڑھنے اور خریدنے میں کمی ہوئی ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی کی پبلک لائبریری سے کتابیں جاری کروانے والوں کی تعداد میں 37 فی صد اضافہ ہوا ہے

حقیقی استاد

حقیقی استاد

کسی بھی  معاشرے کا علمی ، ادبی اور شعوری چہرہ  استاد ہی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی معاشرے کے مستقبل کا تعین کرنا ہو تو آپ اس معاشرے کے نظام تعلیم اور اساتذہ کو دیکھ لیں۔ اس بات کا مطلب سادہ ہے کہ نظام تعلیم اور استاد مل کر ہی وہ ہنر مند اور با صلاحیت لوگ تیار کرتے ہیں جو کسی بھی ریاست کا نظام چلانے کے لئے ضروری ہوتےہیں۔ اگر استاداپنے کام پر  توجہ دینا چھوڑ دے تو کبھی بھی قابل لوگ پیدا نہیں ہو