سرائیکی زبان کے رومی "حضرت خواجہ غلام فرید"
سید سجاد بخاری
ایم فل ایجوکیشن
برصغیر کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 25نومبر 1845کو (بمطابق 5ربیع الثانی )چاچڑاں شریف ریاست بہاولپور میں خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی کے ہاں پیدا ہوئے ۔آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہو ئے تھے ۔آپ کے خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے کوٹ مٹھن کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا اور آپ کے اجداد سے پہلے وہاں سکونت اختیار کی پھر چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے ۔آ پ کی پیدائش بھی وہیں پر ہوئی ۔
8برس کی عمر میں جب آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تو آپ چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کی سرپرستی میں رہے اور پھر 13سال کی عمر میں چاچڑاں شریف واپس جا کر اپنے بڑے بھائی فخر جہاں کے ہاتھ پر بیعت کی جو کہ ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھے آپ نے ان کو اپنا مرشد قرار دیا اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا ۔جس کا اظہار انہوںنے اپنی شاعری میں ان الفاظ میں کیا ۔
فخر جہاں قبول کیتو سے
واقف کل اسرار تھیو سے
27سال کی عمر میں آپ کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور پھر آپ خود مسند نشیں ہو گئے اور والدین سے ملنے والے روحانی فیض کو جاری رکھا ،آپ نے مسند نشیں ہوتے ہی روزانہ کی بنیاد پر لنگر خانے کا اہتمام کیا اور روزانہ سینکڑوں لوگ آپ کے لنگر خانے سے مستفید ہوتے تھے ۔آپ بہت سخی دل اور درویش صفت انسان تھے آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ دیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے گزر بسر کرتے تھے ۔
آپ نے اپنے روحانی تجربات کو شاعری کے ذریعے عام لوگوں تک اور اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا''کافی ''آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں صنف ہے ۔جس کو سرائیکی ادب کا بہت بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے ۔آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی ہے اور آپ نے اپنے لطیف جذبات و احسات کو بہت خوبصورت انداز میں اپنی شاعری میں پش کیا ہے آپ کی شاعری میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے اور آپ کا کلام تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے ۔
خواجہ صاحب کے کلام میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا سراغ ملتا ہے لیکن عشق حقیقی کا رنگ آپ کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور غالب ہے ۔آپ کا نظریہ ہمہ اوست تھا اور آپ وحدت الوجود کے قائل تے ۔معروف پروفیسر دلشاد کلانچوی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں خواجہ صاحب عموماً حالت وجد میں شعر کہتے تھے اور جب آپ پر الہامی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپ بڑی بڑی کافیاں وجد کی حالت میں کہہ جاتے تھے وہ لکھتے ہیں کہ ہر وقت ''فکر سخن ''میں رہنا ان کا معمول تھا ۔
علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں ''جس قوم میں خواجہ فرید جیسے صوفی شاعر اور ان کی شاعری موجود ہو تو اس قوم میں عشق و محبت کا نہ ہونا تعجب کا باعث ہے ''اس لئے آپ کی شاعری میں حسن و عشق کا چرچا بھی ملتا ہے ۔جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
پیلوں پکیاں نی ۔آچڑوں رِِل یار
پھر ایک جگہ اور فرماتے ہیں
میڈی آجکل اکھ پھڑکاندی ہے
کوئی خبروصال آندی ہے ۔
آپ کی شاعری کے بارے میں مولانا کو ثر نیازی کہتے ہیں کہ خوجہ صاحب سرائیکی زبان بولنے والوں اور سرائیکی علاقے کے لوگوں کے روحانی بادشاہ ہیں اور آپ کی شاعری لاکھوں دلوں پر راج کرتی ہے ۔ خواجہ صاحب کا کلام اپنی شاعرانہ لطافت کے باعث سرائیکی خطے کے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہے ۔کیوں کہ آپ کے کلام میں زندگی کی امید کا پیغام ملتا ہے مثلا آپ لکھتے ہیں کہ
تھی فرید شاد ول
ڈکھڑیں کوںنہ کر یاد ول
ریاست بہاولپور کے نواب خاندان کے تمام افراد آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے مریدین میں شامل تھے ۔1879میں نواب رحیم یارخان کے بیٹے نواب جندوڈا خان کی تاجپوشی کے لئے نور محل بہاولپور دربار لگایا گیا اور تاجپوشی کی اس محفل میں نواب صاحب کو خاص طور پر دعوت دی گئی ۔
تاجپوشی کی اس تقریب میں انگریز سرکار کے نمائندے بھی شامل تھے جس میں گورنر رابرٹ ایجرٹن خاص طور پر مدعو تھے تقریب کے اختتام پر ایک شاندار محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا اس مشاعرے میں خواجہ غلام فرید نے انگریز کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری بیان کرتے ہوئے فرمایا
اپنڑی نگری آپ وساتوں
پٹ انگریزی تھا نڑے
آپ کی اس انقلابی شاعری نے عوام کے اندر انگریز کے سامراجی نظام کے خلاف ایک نئی سوچ پیدا کی اور لوگوں کو انگریز کے استحصالی نظام کے خلاف سوچنے پر مجبور کردیا ۔مذہب کا نام لے کر لوگوں کو ورغلانے والے ملاؤں کے خلاف بھی آپ نے آواز بلند کی اور نام نہاد ملاؤں کے اوپر تنقید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
ملاں نہیں کاردے
شیوے نہ جاتن یار دے
بجھن ناں بھیت اسرار دے
غرض آپ کے کلام کے ہر رنگ میں ایک مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے جو کہ سرائیکی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے ۔آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف سرائیکی خطے کی ثقافت کو اجاگر کیا ہے بلکہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے محبت ،اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا ہے ۔آپ نے 24جولائی 1901میں 56سال کی عمر میں وصال پایا اور سرائیکی وسیب ایک عظیم شاعر سے محروم ہو گیا ۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹا خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی آپ کے پسماندگان میں سے تھے ۔ہرسال 5ربیع الثانی کو آپ کا عرس مبارک کوٹ مٹھن شریف میں انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے اور ضلعی سطح پر عام تعلطیل کا اعلان کیا جاتا ہے اس سال بھی ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان جمیل احمدجمیل کی ہدایت پر خواجہ فرید کے عرس مبارک پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا اورضلع بھر میں خواجہ غلام فرید کے پیغام کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور نوجوان نسل کو ان کی فکر سے آگاہی دی گئی ہمیں چاہیے کہ خواجہ فرید کے محبت اور اخوت کے پیغام کولے کرآگے بڑھیں اور معاشرے سے عدم برداشت اور نفرت کے جذبات کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور جس طرح خواجہ صاحب نے لوگوں کے دلوں میں محبت کے چراغ جلائے ہم بھی محبت اور اخوت کو فروغ دے انسانوں کے دلوں میں محبت کے چراغ جلائیں ۔