حِرص۔۔۔
”اماں یہ مرچکا ہے تم اس کو اب لے کر آرہی ہو"۔" نہ ڈاکٹر صاحبہ! ایہہ ساہ گھِندا پیا اے۔ تُساں ایکوں ڈیکھو تاں سہی"۔
ایک لفظ دو زندگیاں
ہانیہ اور فراز کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن ہانیہ کچھ جذباتی لڑکی تھی۔ اکثر جذبات میں غلط فیصلے کر لیتی تھی۔ ایک روز فراز کو اس کا ایک برسوں پرانا دوست زین ملا جسے وہ پیار سے زینی کہہ کر بلاتے تھے۔ فراز نے زین سے اس کا نمبر لیا جو کہ اس نے زینی کے نام سے سیو کیا۔
خواجہ سراءسوسائیٹی
گرمیوں کی تپتی دوپہر تھی۔ بازار سے واپسی پے وہ رکشے پے اپنی خالہ کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ رکشے والا دوسری سواریاں بلانے مڑ گایا تھا۔ چلچلاتی دھوپ اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ دھوپ کی کرنوں سے بچھنے کے لئے اس نے اپنے دوپٹے کا کونہ پھیلا کے چہرہ ترچھا کر لیا۔ اچانک ایک زنانہ آواز پر اسنے یونہی مڑ کے دیکھا تو اسکا دل دھک سے جا لگا۔
راہ راست
آسمان سے اتر کر سحر ہوا میں گھل رہی تھی۔ ستارے تعداد میں پہلے سے زیادہ اور معمول سے کئی گنا روشن تھے۔ سحر شدہ ہوا آج سے پہلے کبھی اتنی خنک محسوس نہ ہوئی تھی۔ آسمان بالکل سیاہ تھا اور دیکھنے پہ یوں محسوس ہوتا جیسے ستارے آسمان سے نیچے اتر کر آداب بجالانے آئے ہوں، کسی کو اپنے ساتھ بلندی پے لے جانے، کسی قبول ہوئی ریاضت کے بدلے نوید پہنچانے۔ فجر کے تھوڑے وقفے بعد ہی بجتے فون کی گھنٹی نے سحر میں ڈوبے د