راہ راست

راہ راست

ثوبیہ مہرین

بی ایس کاسمٹالوجی اینڈ ڈرماٹالوجی

 

آسمان سے  اتر کر سحر ہوا میں گھل رہی تھی۔ ستارے تعداد میں پہلے سے زیادہ اور معمول سے کئی گنا روشن تھے۔ سحر شدہ ہوا آج سے پہلے کبھی اتنی خنک محسوس نہ ہوئی تھی۔ آسمان بالکل سیاہ تھا اور دیکھنے پہ یوں محسوس ہوتا جیسے ستارے آسمان سے نیچے اتر کر آداب بجالانے آئے ہوں، کسی کو اپنے ساتھ بلندی پے لے جانے، کسی قبول ہوئی ریاضت کے بدلے نوید پہنچانے۔ فجر کے تھوڑے وقفے بعد ہی بجتے فون کی گھنٹی نے سحر میں ڈوبے دلوں کو جھنجھوڑا، اور کائنات کی ساری سازش کھل کر سامنے آگئی۔خضر آباد کا ہر فرد اپنے مرشد اپنے قاری اپنے معلم اپنے قاضی اپنے مخلص دوست غرض اپنے کل سرمائے کو آخری دفعہ  بہتی آنکھوں سے دیکھنے آیا تھا۔ فیض محمد کا کفن کی اوٹ سے دمکتا چہرہ، جیسے ستارے اپنا نور انڈیل گئے ہوں۔ لبوں پے پھیلی مسکراہٹ، جیسے تپتے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کا کام کر رہی ہو۔ پیشانی پے چھائی پرسکونیت، جیسے نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہونے کا یقین ہو۔ دل غم سے جل رہا تھا لیکن ہوا میں موجود خنکی اور تروتازگی ہر ایک نے محسوس کی تھی۔

 فرقان کو تعزیعت دینے آئے بستی کے لوگوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ وہ چہرے پے بنا کوئی تاثر لیئے ساکن سا تھا۔ کسی نے ہاتھ تھام کے رندھی آواز میں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ "خضر آباد کا فیض محمد دوبارہ لوٹے گا، ہمیں آپ کی تربیت پہ بھروسہ ہے"۔  سچ سے سب آشنا تھے، فرقان سے امیدیں باندھنا دل کو وقتی سہارا دینے سے کچھ زیادہ نہ تھا۔فرقان کے نانا کو مرے تیسرا دن تھا، شہر میں اس کی پڑھائی، اس کا ڈیلی ورک آؤٹ اور سوشل لائف انتظار کر رہی تھی لیکن اس کے والدین کو اس کی کہاں فکر تھی۔ کلثوم ہر روز شام میں فرقان کے ساتھ اپنے باپ کی قبرپر جاتی۔ ان کی جگہ قبرستان میں اسی مسجد کے ساتھ جہاں ان کے شب و روز گزرتے تھے۔ قبر کے آس پاس خوشبو ہوتی تھی جو فرقان سمجھتا تھا کہ پھولوں سے آرہی ہوتی تھی لیکن وہ گلاب کے پھولوں سے مختلف تھی، بہت فرحت بخش۔

کلثوم نے فرقان کو مسجد سے قرآن پاک لانے کے لیئے بھیجا۔ اس کا دل منع کرنے کو کیا لیکن اس کی والدہ پہلے سے  ایموشنل تھیں چنانچہ سر جھٹک کے پیچھے مڑ گیا۔ سفید رنگ کی مسجد ڈوبتے سورج کی زردی لیئے بےحد خوبصورت لگ رہی تھی لیکن فرقان نے حسب معمول کوئی اثر نہ لیا۔ مسجد کا صحن کافی بڑا تھا کیونکہ بستی کے لوگ فیض محمد کی دی گئی مسحورکن اذان سنتے  ہی باجماعت نماز پڑھنے کھینچے چلے آتے تھے۔ صحن میں چھوٹے پودے اور خوصورت پھول لگے تھے جو مالی کے جانے کے باوجود تروتازہ تھے۔ مسجد کی چھت مخروطی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر فیض محمد نے خودکی تھی۔ دیواروں پہ لکڑی کی الماری بنی تھی جس میں پارے، چھوٹے قرآن پاک، بڑے اور ان سے بڑے قرآن پاک علیحدہ بنے خانوں میں ترتیب سے رکھے تھے اور دوسری طرف فیض محمد کے خود کی لکھی چند کتابیں، تفسیر قرآن، قرآن میں موجود انبیا کرام کے قصے جن کی تفسیر لکھی گئی تھی اور بھی بہت کچھ تھا۔

فرقان یونہی اپنے نانا کی الماری کے قریب آیا اور ایک کتاب نکالی جس کی جلد پہ "راہ راست" لکھا تھا۔ اس نے تعارفی صفحہ کھولا جس پے لکھا تھا:

واذ اتینا موسیٰ الکتب والفرقان لعلکم تھتدون

ترجمہ: "اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاکہ تم رہ راست پہ آؤ"۔

 فرقان نے ہڑبڑا کے اسے واپس رکھ دیا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے نانا نے وہ لائن اسی کے لیئے لکھی تھی۔ وہ جلدی سے قرآن اٹھا کے باہر نکل گیا۔

٭٭٭٭٭

" ارے آج تم اتنی جلدی اٹھ گئے"

"آپ نے ہی تو بولا تھا کہ میں جو کام صبح سویرے کرونگا اللہ اس میں برکت ڈال دے گا"

"ہاں یہ درست ہے لیکن ضروری نہیں ہمارا کام سیدھ میں ہوتا چلا جائے۔ اللہ کبھی کبھی اپنے بندے کا صبر دیکھتا                       ہے۔

"مالی دا کم پانڑیں  لانڑا۔او بھر بھر مشکاں پاوے۔مالک دا کم پھل پھول لانڑاں ۔او لاوے یا نا لاوے"

اسی لیئے اگر تمہارے یہ گملوں میں لگے گلاب کے پودے پھول نہ دیں تو اللہ کی نافرمانی نہیں کرنا"

"اچھا اگر میں اللہ سے دوستی کرلوں تو تب تو وہ میرے گملوں میں پھول لگا دے گا نا؟"

"اللہ یجتبی الیہ من یشاء"   اللہ جسے چاہتا ہے اپنا بنا لیتا ہے۔

لیکن میرے پیارے بچے جسے اللہ اپنا بناتا ہے تو وہ اس کے امتحان بھی سخت لیتا ہے، اسی لیئے جب الٰہی کی جستجو میں نکلو تو یہ بات پلے باندھ لینا راہ کانٹوں بھری ہوگی اور واپسی کا کوئی دروازہ بھی نہ  ہوگا"۔

اب وہ اس کے ساتھ گملوں کی صفائی اور پودوں میں پانی ڈال رہے تھے۔

اچانک فجر کی اذان پر اس کی نیند کھل گئی لیکن وہ نماز پڑھنے نہیں اٹھا بس بستر پہ پڑے چھت کو تکنے لگا۔

٭٭٭٭٭

فرقان سیڑھیوں کے زینے اترتے ہوئے حلیمہ کو غصیلے انداز میں بلاتا آتا ہے۔ ناشتے کی ٹیبل پر کلثوم اور احمد خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ وہ سامنے آکے رکتا ہے اتنے میں حلیمہ بھی بھاگتے اس طرف آتی ہے۔

"آپ لوگ اسے کچھ کہتے کیوں نہیں۔ جب پتہ ہے صبح اٹھتے ہی مجھے کافی اپنے کمرے میں چاہیئے ہوتی ہے تو یہ لائی کیوں نہیں۔ آپ لوگوں کو نہیں معلوم ایسے لوگوں کو ڈھیل دی جائے تو یہ سر پہ چڑھ جاتے ہیں"

حلیمہ سانس روکے کھڑی ہوئی ہے۔ وہ جواب میں کچھ نہیں بولی۔

"بیٹھ کے ناشتہ کرو"۔ کلثوم کوئی تاثر لیئے بغیر کہتی ہے۔ احمد بھی ناشتے کی طرف متوجہ ہے۔

"واٹ؟"

وہ دوبارہ انگلی سے کرسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وہ اکتا کے کرسی پہ بیٹھ جاتا ہے اور ناشتہ پلیٹ پہ نکال کہ کھانا شروع کرتا ہے۔

"تمہاری گریجوایشن مکمل ہو گئی ہے۔ اب تم فارغ رہتے ہو سارا دن تو میں چاہتی ہوں تم کچھ دن گاؤں میں رہ آؤ"۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر کہتی ہے۔ فیض محمد کو گئے تین ماہ گزر چکے تھے لیکن وہ اب بھی خاموش رہتی تھی۔

"لیکن موم میں کیوں جاؤں وہاں۔ میں کچھ دن میں دوستوں کے ساتھ ہنزہ جا رہا ہوں۔ مجھے کیا ضرورت گاؤں جانے کی؟"

"تم دیہات جاؤ گے۔ وہاں مسجد کا کام پڑا ہے میں اور تمہارے ڈیڈ بیچ میں چکر لگا کے پروگریس دیکھ لیں گے۔ اور میں کوئی بحث نہیں چاہتی، بہت گھوم پھر لیئے تم۔۔۔ اس وقت تم مسجد کا کام سنبھالو گے"۔ وہ کھانے کی پلیٹ کی طرف دیکھتے کہہ رہی تھی۔ پھر نظر اٹھا کے اس کی آنکھوں میں دیکھا جو الجھ کے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"اور یہ تم کس ٹون میں اماں حلیمہ سے بات کررہے تھے۔ بچپن سے تمہارے نخرے اٹھائے ہیں انہوں نے آئندہ ان سے اس لہجے میں بات کرتے نظر نہ آؤ مجھے"۔ کہہ کے وہ پلیٹ اٹھا کے کچن کی طرف اٹھی۔

"آپ کے بابا کے مرنے کا میں ذمہ وار ہوں؟ آخر آپ لوگ مجھے ایسے کیوں ٹریٹ کررہے ہیں۔ میں کہیں نہیں جاؤں گا اور آپ بھی اب سوگ منانا بند کردیں"۔ وہ اٹھ کے الجھ کے بولنے لگا۔

"یہ تم کیسے بات کررہے ہو اپنی موم سے۔ شرم آنی چاہیئے تمہیں اور تم گاؤں جاؤ گے میں دیکھتا ہوں کس طرح آوارہ گردیاں کرتے ہو تم"۔ احمد بھی غصے سے کہتا اٹھ گیا۔ اب سب کا دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ فرقان لب بھینچے وہیں بیٹھا رہا۔

اب احتجاج بے معنی تھا۔ وہ اگلی صبح گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا لیکن دل میں دوستوں کے ساتھ ہنزہ نا جانے کا غصہ بھی کافی تھا لیکن اب اس کی فکر کسے تھی۔ پورا رستہ وہ بددل تھا اور پریشان بھی کہ اس کے دوست اس کے بارے میں کیاسوچیں گے۔ جب وہ واپس جائے گا تو وہ کس طرح اس کا مذاق  بنائیں گے۔دوپہر تک وہ وہاں پہنچ چکا تھا۔ شام میں ہی اس نے مسجد کا رخ کیا تاکہ جلد ہی کام ختم ہو اور وہ آزاد ہوسکے۔

مسجد کے اندر دیواروں پہ قرآنی آیات ادھوری تھیں۔ فیض محمد یقیناان دنوں انہیں لکھ رہا تھا۔ کچھ جگہوں پہ مرمت کرنی تھی۔ مسجد کے آس پاس والی زمین کا کچھ حصہ مسجد کے لیئے بستی والوں نے وقف کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مسجد وسیع کی جا سکے اور صحن میں پھول کیاریاں اور درخت لگانے کی جگہ بھی مل سکے۔ مسجد کے کام میں فرقان کا بہت سا وقت لگ جانا تھا لیکن خیر اب اس کی فکر کسے تھی۔

فرقان چونکہ انجینئر تھا اسی لیئے اس کے ماں باپ نے اسے یہاں پھنسا دیا تھا۔ فرقان نے مسجد کا نقشہ بنایا، چند بزرگ اسے دیکھ کے راضی بھی ہوگئے۔ جب مزدور بلوانے کے لیئے اس نے کہا تو بستی والے خود بطور مزدور کام کرنے کے لیئے آئے۔ چند دن میں کام شروع ہوگیا۔ فرقان خضرآباد کے لوگوں کا جذبہ دیکھ کے حیران تھا۔ کیا چیز تھی جو ان سے اطاعت کروا رہی تھی۔ وہ اپنے کام کاج چھوڑ کے مسجد کے کام کے لیئے دوڑے چلے آتے۔ مزدوروں کے لیئے کھانے بھی خواتین گھر سے تیار کروا کے بھیجتی تھیں۔ ان کی بےلوث محبت قابل رشک تھی۔ کام کرتے کرتے رات ہوجانے لگی تھی لوگ مسجد کا کام کرتے کرتے تھکتے نہ تھے ایک دفعہ دیر کافی ہوچکی تھی تو فرقان مسجد کی صف پہ ہی سوگیا۔

٭٭٭٭٭

اس کی آنکھ کھلتی ہے سامنے تقریباً سات سال کا بچہ ریک میں رکھی کتابیں کھول رہا ہوتا ہے۔ "تم کون ہو اور اتنی صبح ادھر کیا کر رہے ہو"۔ فرقان الجھ کے اس سے مخاطب ہوا۔

"میں ہمیشہ سوچتا تھا قاری صاحب نے راہ راست کے پہلے صفحے پہ لفظ فرقان کے بارے کیوں لکھا تھا۔ انہوں نے یہ فرقان کے لیئے لکھی تھی۔ ان کو یقین تھا آپ آئیں گے"۔ اس کے چہرے پہ معصومیت تھی۔ آنکھوں میں چمک، وہ آگے بڑھا اور اس سے کہنے لگا تھا۔"جو بھی ہو تمہیں اتنی صبح ادھر نہیں آنا چاہیئے تھا سامنے قبرستان ہے، تم ڈر سکتے ہو"۔ وہ اب بچے کو بڑوں کی طرح سمجھانے لگا۔

"یہ دیکھیں اؤل صفحے پہ قاری صاحب نے لکھا " فرقان فرق سے نکلا۔ فرق کہتے ہیں دو چیزوں کے درمیان جدائی کر کے ان میں تمیز کرنا۔ دو چیزیں ایک جیسی ہیں یا نہیں، کیا سچ ہے کیا جھوٹ۔ ایسا فرق ہر کوئی نہیں کرسکتا۔ کون سچا دوست ہے کون نہیں، کونسا فیصلہ درست ہے کونسا غلط، کونسی سمت درست ہے کونسی نہیں۔ یہ تب تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس کوئی واضح فرقان نہ ہو۔ واضح دلیل۔ پھر فرقان قرآن کو بھی کہتے ہیں جس میں واضح حکایات ہیں واضح دلیلیں۔ اور فرقان قیامت کے دن کو بھی کہتے ہیں جس دن اعمال کا واضح حساب کر کے سزا و جزا ملے گی۔ اسی لیئے میں نے تمہارا نام فرقان پسند کیا۔ لیکن تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ یہ قرآن اور صحیح غلط میں فرق یہ دو چیزیں عموماً ایک ساتھ عطا کی جاتی ہیں اور ایک ساتھ لے لی جاتی ہیں۔ تم ابھی راہ راست سے بھٹکے ہو لیکن مجھے یقین ہے تم ایک دن اپنی راہ راست پا لوگے اور کوشش کرنا کہ قرآن جو تم سے چھین لیا گیا ہے تمہیں واپس مل جائے"۔  چند لمحے خاموشی رہی، نرم لحجہ چھٹ چکا تھا اور پھر فجر کی اذان کانوں میں پڑتے ہی منور بلبلہ پھوٹ گیا۔ اس بار فرقان نے نماز کو نظر انداز نہ کیا اور وضو کر کے جماعت میں جا کھڑا ہوا۔

٭٭٭٭٭

فیض محمد کی قبر آج بھی پرسکون محسوس ہوتی تھی، قبر کی مٹی ٹھنڈی تھی اور سرہانے کسی درخت کا پودا اگنے لگا تھا۔ قبر اس کے کہنے کے مطابق ہی کچی رکھی گئی تھی تاکہ جذبات میں آکے لوگ بدعت نا شروع کردیں۔ فرقان قبر کے پاس ٹھہرا تھا۔ وہی شروع دن سے آنے والی فرحت بخش خوشبو، وہ محسوس کر سکتا تھا اور اب تو قبر پہ پھول بھی نہیں تھے۔ وہ کہاں سے آرہی تھی اللہ بہتر جانتا ہے۔ وہ ایسے ہی کچھ دیر وہاں ٹھہرا رہا پھر پیچھے مڑ گیا۔

آج کلثوم اور احمد مسجد کا کام دیکھنے آئے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چلتا تھاکہ کام بہت پسند آیا تھا۔ وہ وہاں ذیادہ دیر نہ رہے، واپس مڑ گئے۔

"فرقان صاحب کام کچھ دنوں میں ختم ہوجائے گا۔ آپ کے جانے کے بعد سب پھر اداس ہوجائینگے"۔

"قاسم چچا میں واپس نہیں جا رہا۔ چند دن مزید یہاں رہنا چاہتا ہوں"۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آپ میں ہمیں قاضی صاحب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ایک امید بندھ جاتی ہے"۔

"میں بہت چھوٹا تھا جب سے نانا سے ملنا کم ہوگیا تھا۔ شہر میں سکول میں داخلہ ہوجانے کی وجہ سے میرا یہاں آنا بالکل بند ہوگیا۔ نانا کی ادھر کی ذمہ داری تھی وہ کبھی کبھار ہمارے گھر آجایا کرتے تھے۔ میں ان کے بارے زیادہ نہیں جانتا لیکن یہ ان کے تعارف کے لیئے کافی ہے کے وہ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں سے تھے"۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا "  میں ان سے بالکل مختلف ہوں لوگوں کی مجھ سے امیدیں بے فائدہ ہیں"۔

"حضرت علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہہ) کا قول ہے ' جو تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھتا ہو اس کے خیال کو سچا کر کے دکھلا دو'۔ مجھے ذرا شہر جانا ہے کام کے سلسلے، میں چلتا ہوں"

اس بار فرقان نے راہ راست خود کھولی۔ پہلے صفحے پے واقعی فرقان کے نام کے بارے لکھا تھا۔ اس نے صفحہ پلٹا عبارت کہہ رہی تھی "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ وہ  تمہیارے اعمال سنوار دے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا"

"فرقان میں تمہیں آیات کھول کھول کے رب کی طرف بلاتا ہوں تم اس آیت پہ عمل کرتے رہو۔ گناہوں سے ایسے بچو جیسے کانٹوں بھرجھاڑیوں سے ۔ یہ تقویٰ کہلاتا ہے۔ ہر چمکتی چیز کے پیچھے نہ لگا کرو اور ہر موڑ پے بااثر لوگوں کو دیکھ کے نہ اتر جایا کرو۔ اور آیت کی دوسری بات ایسے بات کیا کرو جس میں کوئی ٹیڑھ نا ہو۔ بلا خوف و خطر سیدھی صاف بات کرنا اور نتائج کی پروا کیئے بغیر اس پہ ڈٹ جانا۔ اور بدلے میں اللہ تمہارے اعمال، تمہارا کام، تمہاری نیت سنوار دے گا۔ اچھے اعمال برے اعمال کی جگہ لے لیتے ہیں وہ بھی تمہارے گناہ معاف کردے گا"۔

الفاظ بالکل واضح تھے اس کو ترغیب دی گئی تھی۔ اسے ہدایت دی جارہی تھی۔ نانا کو چھوڑ کر وہ گیا تھا لیکن اس کے نانا کو اس کی پرواہ آخری سانس تک تھی۔ اس کی آنکھیں تر ہوگئی تھیں اسے اپنے اوپر بہت بڑا قرض محسوس ہو رہا تھا جو اب اسے چکانا تھا۔

اب ہر نئے دن کے ساتھ وہ راہ راست کھول کے بیٹھ جایا کرتا اور ایک دن میں ایک آیت کی تفسیر سمجھا کرتا۔ کافی دن گزر گئے کلثوم نے فون کر کے پوچھا کہ مسجد کا کام ختم ہوئے کافی دن ہوگئے وہ واپس کیوں نہیں آیا۔ وہ جان کے بہت خوش تھی کہ فرقان اب اپنی زندگی کا مقصد پہچان گیا وہ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوئی کہ اس نے اس پر ایک بار پھر احسان کیا تھا۔

کئی مہینے گزر گئے تھے اتنے دنوں میں وہ بہت کچھ جان اور سیکھ چکا تھا۔ تہجد اور نماز کا پابند۔ سوشل لائف سے دور جا چکا تھا۔ اسے بندے اور رب کے تعلق کی گہرائی کی سمجھ لگنے لگی تھی۔ اب وہ چند ماہ پہلے والا فرقان نہیں تھا۔ اب وہ صحیح غلط کا فرق جانتا تھا۔ اب اس نے فرقان (قرآن) کو واپس مضبوتی سے تھام لیا تھا۔ آج راہ راست کا آخری صفحہ پڑھنا باقی تھا۔

اپنے رب سے ہمیشہ چند لوگوں کے نام کی فہرست میں اپنا نام شامل کرنے کی دعا کیئے رکھنا۔ اسے تھوڑے لوگ پسند ہیں جیسے اللہ نے روشن کتاب میں بیان کیا ہے:

"میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں"34:13

"اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے"11:40

"مزے کے باغات میں پچھلوں میں زیادہ ہیں اور بعد والوں میں تھوڑے"56:12

ان اکثر لوگوں کو دیکھ کر رشک نہ کرنا جن کے پاس دولت وافر ہو، جو ظلم ڈھا کے بھی بنا پکڑ کے جیتے ہوں، جو ریا کار ہوں، جن کا مال سود کے باوجود پھل پھول رہا ہو۔ ان کو تو اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے اور دیکھ رہا ہے کے کہاں تک ظلم کی راہ پہ قائم رہتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب سب کا حساب کیا جائے گا۔ اس وقت چند ہی سرخرو ہونگے"

٭٭٭٭٭

صبح کے وقت مسجد کے صحن میں فرقان بچوں کا روزانہ کا سبق سننے میں محو تھا۔ اتنے میں مسجد کے دروازے پہ شور سا مچا۔  ایک ساٹھ کے قریب کا شخص ایک عورت کو لیئے صحن تک آیا۔ پیچھے اس کے بستی کے لوگوں کی تعداد تھی۔

"قاضی صاحب یہ عورت بدکار ہے میں چاہتا ہوں آپ اسے شریعت کے مطابق سزا دیں"۔

"تفصیل بتاؤ اس عورت کا تم سے کیا رشتہ ہے اور معاملہ کیا ہے"۔ وہ تقریباً اکیس سال کی لڑکی تھی۔ چہرہ اس نے چادر سے ڈھک رکھا تھا جس سے وہ آدمی تھامے مسجد کے صحن تک گھسیٹ لایا تھا۔

"اس عورت کے بھائیوں نے میرے نوجوان بیٹے کو مار ڈالا۔ ونی کے طور پہ میں اسے لے آیا لیکن یہ بے حیا ہے اس نے غیر مرد سے تعلقات رکھے میری نافرمانی کے لیئے۔ اس کا جو حمل ہے وہ میرا نہیں ہے۔ یہ سراسر بدکار ہے"۔ نہایت غصیلے انداز میں وہ اپنا فیصلہ سنانے لگا۔

"کیا آپ اپنے حق میں کوئی صفائی دینا چاہیں گی؟" فرقان کا لہجہ پرسکون تھا۔ چہرے پہ کوئی پریشانی نہیں تھی۔

"میں فیض محمد کے نواسے سے انصاف چاہتی ہوں۔ وہی انصاف جو حق پہ ہو اور آپ کا فیصلہ مجھے دل سے منظورہوگا؟"۔ کوئی ملال نہیں کوئی ڈر نہیں تھا اس کےلہجے میں۔

"یہ اپنی بدکاری کے قصہ کہاں سنائے گی۔ یہ اپنے باپ جیسی مکار ہے"۔ وہ تلملا اٹھا۔

"اس الزام پہ تم اٹل ہو؟ جو شریعت کا فیصلہ ہوگا وہ تم بلا جواز اپناؤ گے؟"۔

"جی میں فیصلے کو اپناؤں گا، لیکن میرا الزام جھوٹا نہیں"۔

"پہلی بات تو یہ عورت اگر بدکار ہے اور اگر تمہیں یقین ہے تو اس کے گناہ کو دیکھنے والے چار گواہ کہاں ہیں؟ اگر گواہ نہ لائے گئے تو اس نیکوکار عورت پہ الزام لگانے کے مرتکب ہوگے تم جس کی سزا 80 کوڑے ہے"۔

"لیکن میں گواہ کیسے لا سکتا ہوں آپ جانتے ہیں ایسے گناہ چوری چھپے کیئے جاتے ہیں"۔

"یہ اللہ کا فیصلہ ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔۔ چار گواہ لے آؤ تب اس پہ زنا کا الزام لگ سکتا ہے ورنہ تم ظالموں میں سے ہوگے اور دوسری بات کسی کے باپ کا گناہ اس کے بچوں کے سر نہیں تھوپا جا سکتا۔ تمہیں اس کے باپ سے بدلہ لینا چاہیئے تھا۔۔۔۔۔۔ قتل کے بدلے قتل۔۔۔۔ لیکن تم نے اس پہ ظلم کیا۔ اس لیئے تمہیں 3 سے 7 سال قید ہوگی اور پانچ لاکھ جرمانہ بھی ادا کرو گے۔ یہی سزا ہے تمہاری"۔ وہ سچی اور سیدھی بات کر رہا تھا بنا کسی ٹیڑھ کے۔

"یہ ظلم ہے آپ ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ عورت سزا کی حق دار ہے"۔ اب وہ آدمی بوکھلا کے کہے جا رہا تھا۔

"قاسم چچا اندر کوڑا رکھا ہے وہ لے آئیں"۔

"رکیں آپ لوگ یہ ظلم نہیں کر سکتے، میں بےقصور ہوں گناہ اسکا ہے"۔ اسکے چہرے کا رنگ پھیکا پڑنے لگا تھا۔

"آپ اسے کوڑے لگائیں گے اور میں گنتی کرونگا"۔ اسے کسی نتیجے کا خوف نہیں تھا وہ سچا تھا۔ اس کی شخصیت فیض محمد جیسے لگ رہی تھی بےباک رعب دبدبے والی۔

یاد رہے آپ کی کلائی حرکت کرے گی لیکن بازو اوپر نہ ہو۔۔۔۔ آپ رب کی بنائی حد سے تجاوز نہیں کریں گے"۔

سب لوگ دم سادھے جو ہورہا تھا دیکھ رہے تھے۔ قاسم چچا نے کوڑے مارنے لگے۔ وہ ضعیف شخص درد سے کراہ رہا تھا وہ چیخ رہا تھا۔ تیسرے کوڑے پے وہ بوڑھا تاب نہ لا پایا اور بولنے لگا۔

"میں اعتراف کرتا ہوں میں نے تہمت لگائی تھی۔۔۔۔ مم۔۔ میں نے الزام لگایا ۔۔۔۔۔ میں اسے ونی کر کے لے آیا لیکن میرا ضمیر مطمعن  نہیں تھا۔ مم۔۔۔ میں نے سوچا میں اسے بدنام کر کے اسے درد ناک عذاب دلواؤں گا تاکہ اس کے باپ کو بھی معلوم ہو مجھے کیسے تکلیف ہوئی تھی۔ مجھ۔۔ مجھے معاف کردیں میں ہاتھ باندھتا ہوں۔ میں اپنے ظلم کا اعتراف کرتا ہوں"۔ بوڑھے کا خون نچڑ چکا تھا۔

"قاسم چچا آپ رک کیوں گئے۔ آپ نے 77 کوڑے مارنے ہیں ابھی شروع کریں"۔

بستی والے حیران تھے اور ساتھ میں پر امید بھی۔ وہی لہجہ، وہی اٹل فیصلہ۔ ان کا مرشد، قاری، معلم، قاضی، مخلص دوست واپس آگیا تھا۔ خضرآباد کو اپنا فیض محمد مل گیا تھا۔