بچوں کی تربیت  و اصلاح میں والدین کا کردار

بچوں کی تربیت  و اصلاح میں والدین کا کردار

ماجد رشید

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

 

صبح چھ بجے جلدی میں دو تین سال کے بچوں سے لے کر تمام سکول کالج جانے والے بچوں کو جگایا جاتا ہے۔جنہیں فجر کی نماز کے لئے جگانے کا رواج ہی نہیں رہا۔اٹھنے کے بعد گھر کے کسی بڑے چھوٹے کو سلام دعا کرنے کی تلقین ہی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی بچے کو اٹھا کر ماں باپ خود دعا سلام کرتے ہیں۔جلدی میں تیار کر کے ناشتہ کروا کر یا بغیر ناشتہ کے لنچ باکس تیار کر کے سکول بھیج دیا جاتا ہے۔ایک یا دو بجے بچہ گھر آتا ہے۔ یونیفارم تبدیل کروا کر بھاگتے دوڑتے کھانا کھلایا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے بھیج دیا جاتا ہے۔جہاں سے واپس آتے ہی بچے کو ٹیوشن سنٹر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔اب ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ تین بجے سے گیا بچہ کم سے کم رات سات یا آٹھ بجے گھر  آئے تا کہ گھر میں سکون رہے۔اور جیسے بچہ گھر آتا ہے روٹی کھائے یا باہر سے برگر لائے اور ٹی وی لگا کر بیٹھ جائے یا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر مصروف رہے مگر والدین کو تنگ نہ کرے اور نہ ہی چھٹی والے دن والدین کو تنگ کرے ،لہذا بچہ چاہے ٹی وی دیکھے یا موبائل پر جو بھی کرے مگر والدین کو  گھر میں خاموشی اور سکون چاہیے ۔اور ساتھ ہی والدین بھی وٹس ایپ،فیس بک یا مختلف قسم کےسوشل نیٹ ورک پر مصروف رہتے ہیں۔ یہ  صورتِ حال بچوں کی ایسے ہی رہتی ہے۔ کسی گھر میں سات دس لوگ ہیں سب کے پاس موبائل ہے سب سوشل نیٹ ورک پر مصروف رہتے ہیں ایک ساتھ بیٹھنے کے باوجود بھی تمام لوگ ایک دوسرے سے بےخبر ہوتے ہیں۔کوئی کسی کا حال نہ پوچھتا ہے نہ جانتا ہے۔ہر شخص فیلنگ الون سے ایٹنگ الوٹ تک کے احساسات فیس بک یا وٹس ایپ  پر سٹیٹس ڈال کر بتا رہا ہوتا ہے۔  مسلسل ڈی پی بدلنے میں مصروف  اور کمنٹس میں داد وصول کرتے یہ لوگ نہ  بحیثیت ِ والدین اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں نہ ہی  بحیثیتِ  انسان۔گھر میں موجود ماں کو سر درد کا نہ بتانے والے فیلنگ پین کا سٹیٹس لگا  کر آن لائن  ایمو جی اور اسٹیکرز کی صورت میں مختلف دوا حاصل کرنے  والے یہ لوگ حقیقت میں نہ اپنا درد کسی سے بیان کرتے ہیں نہ ہی اپنے مسائل کسی کو بتاتے ہیں۔لہذا بے حسی عروج پر ہے۔احساسات مر گئے ہیں۔وٹس اپ امیاں فیس بکی ابو انسٹاگرام اولاد یہ دورِ حاضر کی بے حس مخلوق ہیں۔اصل  زندگی میں سب سے دور اور سوشل نیٹ ورک پر  فیلنگ لو ود ڈیڑھ سو  اَدرز کرتے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں ماں باپ کا کردار صرف یہ ہے کہ صبح جگانا ،روٹی دینا، سکول بھیجنا، مدرسے بھیجنا، ٹیوشن بھیجنا اور جب مستقبل میں بچے پڑھ لکھ جائے نوکری کرنے لگے تو انکی شادی کر دینا۔

ماں باپ دونوں کے پاس ہی اولاد کو صحیح غلط بتانے ان کے مسائل سننے اور حل کرنے کا وقت ہی نہیں۔لہذا ماں باپ اور بچے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔بچے اب والدین سے باتیں چھپاتے ہیں۔اپنے مسائل  خود حل کرنے کی کوشش میں اکثر غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں۔

آج اپنے ہی گھروں میں بچے اور بچیاں اپنے کزنز  چچا یا ماموں کے ہاتھوں بھی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔سکول، کالج ،مدرسے یا کسی بھی طرح  مسلسل کئی کئی ماہ جنسی درندگی اور تشدد سہتے ہیں ۔حال ہی میں معروف گلوکارہ نادیہ اقبال کے بھائی کا معاملہ سامنے آیا جو گھر ہی میں اپنی بھانجیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا رہا تھا وقت کی کمی ،بچوں سے دوری ،بچوں پر بے اعتمادی ہی وجہ تھی کہ  ایک ماں  سمجھ نہ سکی کہ اس کے بچے کس اذیت میں ہیں۔بچہ سکول، کالج ،مدرسے ،اکیڈمی  کے کسی معاملے کی شکایت کرتا ہے تو والدین توجہ نہیں دیتے ۔اسی وجہ سے اکثر  اساتذہ کی طرف سے یا تو جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں یا جسمانی تشدد کا۔درندے ہمارے معصوم بچوں کو نشہ دے کر غلط راستے پر ڈال کر اور جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر کچل رہے ہیں اور ماں بچوں کی روٹی ،کپڑا ،تعلیم میں مصروف ہے اور والد ان ضروریات کے لئے پیسہ کمانے میں۔اور جس اولاد کے لئے والدین دن رات محنت کر رہے ہیں وہ ذمانے کی گردش میں ذندگی  اور عزت ہارتے جا رہے ہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی

جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ

صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے جھجک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ معاملہ والدین کو بتا دیں تو والدین توجہ ہی نہیں کرتے۔اولاد کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے ۔مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے ۔بلاوجہ کا رعب دبدبہ غصہ آج کل بچوں کو والدین سے دور کرنے کی وجہ ہے۔والدین کو آپس میں بیٹھ کر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بچوں کی تعلم و تربیت پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اگر والد سخت مزاج ہے  تو ایسی صورت میں ماں کو اولاد کی دوست بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور اگر ماں سخت ہے تو والد کو بچوں کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ  سکول ،مدرسے، ٹیوشن  سے آتے ہی بچوں سے ان کی باتیں پوچھیں  انکے دل کی بات زباں پہ لائیں اور اگر کبھی وہ غلطی پر ہوں تو بھی اچھے سے سمجھائیں تاکہ بچے آئندہ کے لئے بے خوف ہو کر ہر بات بتا سکیں۔والد جتنا بھی مصروف ہو رات کو لازمی بچوں کو وقت دے۔ان سے تعلیمی سرگرمیوں دوستوں اور ان دوستوں کے اہلِ خانہ ان کی سرگرمیاں ان کی حرکات کے بارے میں وقتا فوقتا معلومات حاصل کرے تا کہ وقت رہتے علم ہو سکے کہ بچہ کسی غلط سمت تو نہیں جا رہا۔

والدین اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر ان سے گپ شپ نہیں کریں گےان سے دوستانہ تعلق استوار نہیں کریں گے بچوں کو صرف اچھے گریڈ لانے والا کھلونا سمجھے گے۔ ان کے مسائل نہیں سنیں گے انہیں حل نہیں کریں گے ان کی کامیابی پر حوصلہ افزائی نہیں کریں گے ان کی ناکامی پر ان کو محبت سے نہیں نوازے گے تو بچے والدین سے دور ہونا شروع ہو جائیں گے وہ محبت کے لئے متبادل راستے تلاش کریں گے خواہ وہ نشہ ہو یا کسی اجنبی کی محبت میں گرفتار ہو کر ہوس کا نشانہ بنے گے.اختر امام رضوی نے کیا خوب کہا ہے کہ

ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر

کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ

اپنوں کی چاہتوں نے بھی  کیا کیا دیئے فریب

روتے رہے لپٹ کر ہر اجنبی کے ساتھ

بچوں  کو والدین کے  پیسوں اور چیزوں سے  زیادہ  انکی دوستی محبت اور پیار کی ضرورت ہے جو والدین نہیں دے رہے۔ ہم سب لوگوں کو معاشرے پر الزامات لگانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنے  کی ضرورت ہے۔والدین کو مکمل طور پر بچوں کے ہر معاملے پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ دوستانہ ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ مسائل  کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔اس معاشرے کے نشیب و فراز مسائل سے آگاہی اور اس کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بچوں کی تربیت  بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا ایک لازمی جزو ہے جو کہ والدین کے بڑھاپے کا بھی بہترین سہارا ہے اور ملک و قوم کی ترقی کا ضامن بھی ہے۔