مہنگائی کم کیوں نہیں ہوتی؟
رضوان علی گھمن
اٹلی
مہنگائی مہنگائی مہنگائی یہ کم کیوں نہیں ہوتی۔ ؟کیوں۔۔۔۔۔ کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک مہنگائی کم نہیں کر سکتا۔ یہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے تو ایسے میں ٹیکس اصلاحات کے ذریعے چیزوں کو مہنگا تو کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی بھی چیز ایک خاص حد سے نیچے نہیں آ سکتی۔ پاکستان سمیت تمام غریب ممالک اپنی پوری توانائی چیزوں کو سستا کرنے میں لگا دیتے ہیں لیکن پھر بھی مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ایک سادہ سی مثال ہے جو چیز بیرون ملک سو روپے کی بک رہی ہو وہ پاکستان میں کیسے دس روپے کی ملے گی۔ تاجر تو اپنا سامان وہیں بیچنے کی کوشش کرتا ہے جہاں اسے زیادہ منافع ملتا ہے۔ اگر گورنمنٹ بیرون ملک بیچنے پر پابندی لگاتی ہے تو ملکی برآمدات کم ہو جاتی ہیں۔ ڈالرز آنا بند ہو جاتے ہیں اور ڈالرز کی کمی ملکی کرنسی کو نیچے گرا دیتی ہے۔دوسری مثال۔۔۔۔ کسی بھی چیز کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے را میٹیریل کا ساٹھ ستر فیصد بیرون ملک سے آتا ہے جو ظاہر ہے مہنگا ہوتا ہے۔ اور اس سے بننے والی چیز بھی مہنگی ہو گی۔اس وقت پوری دنیا میں ضروریات کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ یہ تقریباً برابر برابر ہی ہوتی ہیں فرق صرف ڈیوٹی ٹیکس کی وجہ سے پڑتا ہے جو ملک زیادہ ڈیوٹی ٹیکس لیتا ہے وہاں قیمت زیادہ ہوتی ہے اور کم ڈیوٹی ٹیکس لینے والے ملک میں نسبتاً سستی۔
ایسے میں مسائل کا اصل حل کیا ہے۔ یہاں حل صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ کرنا۔ جب مزدور کی تنخواہ زیادہ ہو گی تو اس کے لیے ضروریات زندگی کا سامان خریدنا آسان ہو گا۔ وہ زیادہ خریداری کرے گا۔ کارخانے اور فیکٹریاں زیادہ سامان تیار کریں گی۔ زیادہ روزگار پیدا ہو گا۔ زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ اچھی معشیت کا سارا دارومدار مزدور کی زیادہ تنخواہ پر ہوتا ہے۔حکومت جتنا زور اور پیسہ سبسڈی پر لگاتی ہے۔ وہ اس کا آدھا بھی مزدور کو ریگولر کرنے پر لگا دے تو ملک ترقی کر جائے گا۔یورپ میں کام کی اجرت ٹیکس کاٹ کر آٹھ یورو گھنٹہ ہے۔ یہ پاکستانی سولہ سو روپے بنتے ہیں۔ اس سے کم تنخواہ دیتے ہوئے اگر کوئی مالک پکڑا جائے تو اسے بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔یورپ میں کوئی ریٹ لسٹ نہیں ہوتی یہ دکان دار کی مرضی ہے وہ اپنا سامان دس یورو کا بیچے یا دس ہزار کا گورنمنٹ کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ صرف لوگوں کی تنخواہوں پر نظر رکھتی ہے۔ اور کسی بھی حالت میں تنخواہ آٹھ یورو سے نیچے نہیں آنے دیتی۔یہی یورپ کی ترقی کا راز ہے۔ یہاں مرغی ایک سو پچاس روپے میں ملتی ہے۔ یہاں کا مالک مزدور کو ماہانہ تین تین لاکھ روپے تنخواہ دینے کے بعد بھی ایک سو پچاس روپے فی کلو میں اپنا منافع نکال لیتا ہے۔ تو پاکستان میں تنخواہ پچیس تیس ہزار سے آگے کیوں نہیں جاتی۔
جرمنی میں تو مالک مزدور کو کام پر رکھنے سے پہلے مقامی لوکل آفس سے باقاعدہ اجازت لیتا ہے۔ اور ان لوکل آفس میں پورے جرمنی کے مزدوروں اور بے روزگاروں کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ یہاں بغیر کنٹریکٹ کے مزدور کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو مالک اور مزدور دونوں کو سزا دی جاتی ہے۔ یہاں سیاست دانوں کا کام سڑکیں اور پل بنانا نہیں ہے اس لیے آپ کو پورے جرمنی کے کسی بھی ہسپتال سڑک یا پل پر کسی سیاستدان کی تختی لگی نظر نہیں آئے گی۔ آپ کو سیاستدان یہ کہتا ہوا بھی نظر نہیں آئے گا کہ میں نے کوئی سڑک یا پل بنایا ہے۔ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے۔ سڑکیں اور پل بنانے کا کام جرمنی کا ایک باقاعدہ سرکاری ادارہ کرتا ہے جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے اور یہ ادارہ پارلیمنٹ اور عدالت دونوں کو جوابدہ ہوتا ہے۔یہ لوگ صرف پالیسیاں بناتے ہیں ایسی پالیسیاں جو کاروبار کو ترقی دیتی ہیں نئے روزگار پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کاروباری افراد کی عزت کی جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یورپ کی سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ایک بھی بھکاری نہیں ہے۔ یہاں کوئی بے گھر نہیں ہے۔ جرمن گورنمنٹ بے روزگار نوجوانوں اور بزرگوں کو گھر بٹھا کر ہی ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے مہینہ الاؤنس دے رہی ہے۔ یہ کوئی ایٹمی ملک نہیں ہے یہاں تو فوج بھی امریکہ کی لگی ہوئی ہے۔ جرمنی نے ہٹلر کے بعد قوم پرستی اور نفرت کا راستہ چھوڑ دیا تھا۔ ان کی اب کسی بھی ملک یا مذہب سے کوئی جنگ نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج جرمنی کی آٹو انڈسٹری ہی سالانہ ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کما کر دیتی ہے۔ مطلب پاکستان پر جتنا ٹوٹل قرضہ ہے اتنا پیسہ جرمنی کا صرف ایک آٹو انڈسٹری کا ادارہ ایک مہینے میں ہی کما لیتا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کو ایسے ہی کسی دھیمے مزاج والے حکمران کی ضرورت ہے جو نفرت کی سیاست نہ کرتا ہو۔ جو سڑکوں اور پلوں کی سیاست نہ کرتا ہو۔ ہمیں ایسے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے حکمران کی ضرورت ہے۔ جو معشیت کو سمجھتا ہو جسے پالیسی بنانا آتی ہو۔ جسے ایک مزدور کے درد کا احساس ہو جسے اس چیز سے کوئی غرض نہ ہو کہ وہ مزدور مسلمان ہے ہندو سکھ یا عیسائی جو سب کا وزیراعظم ہو ۔ جو معشیت اور قانون سازی کے نام پر ووٹ لیکر آئے اور اپنے پانچ سال قانون سازی پر لگا دے۔ یقین کیجیے جس دن ہم نے نفرت اور قوم پرستی کی سیاست چھوڑ دی اس دن ہم ترقی کر جائیں گے۔ ورنہ یقین کرو دوستو ہمارہ حال بھی ٹوٹے ہوئے جرمنی جیسا ہو گا۔ جو دنیا کا ذہین ترین اور طاقتور ترین ملک ہوا کرتا تھا۔ اس کی سرحدیں ہنگری اور اٹلی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے سائنس کی زبان انگریزی کی بجائے جرمن ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ ملک ہے جس نے صرف ایک ہفتے میں پورے یونان کی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس کی فوج ایک طرف فرانس انگلینڈ اور امریکہ کے ساتھ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف روس کے بارڈر پر۔ یہ وہی ملک ہے جس نے فرانس اور پولینڈ پر قبضہ کر لیا تھا۔ جرمنی اکیلا ملک تھا جس کے خلاف پورا یورپ اور امریکہ لڑ رہا تھا۔ آپ آج بھی جرمنی آئیں تو آپ کو اس ملک کے کھنڈر بنے شہر مل جائیں گے۔ اس ملک کے ستر سال پہلے چار ٹکڑے ہو گئے تھے اور اس کے اسی 80 فیصد سے زائد نوجوان اور مرد مارے گئے تھے۔ یہاں صرف عورتیں بچے اور بوڑھے ہی رہ گئے تھے۔ یہ ملک نفرت اور قوم پرستی میں مبتلا ہو کر تباہ ہو گیا تھا۔ انہیں لگتا تھا جرمن دنیا کی عظیم ترین قوم ہے اور دنیا پر حکومت کرنے کا حق بھی جرمنی کو ہے۔ ہٹلر اسی نعرے کو لیکر آیا تھا اور سب کچھ تباہ برباد کر کے چلا گیا۔ آج جرمنی میں ہٹلر کا نام لینا بھی جرم ہے آج جرمنی میں نفرت اور قوم پرستی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس کی اب کسی بھی ملک سے کوئی جنگ نہیں ہے۔ جرمنی کے بارڈر چاروں اطراف سے کھلے ہوئے ہیں اور یہ لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے ہمسایہ ممالک میں ایسے جاتے ہیں جیسے ہم ایک شہر سے دوسرے شہر میں۔
ہمارے پاکستان کو بھی جرمنی سے کچھ سیکھنا چاہیے یہ ملک رقبے میں ہمارے صوبہ بلوچستان کے برابر ہے۔ اور اس میں بھی صرف تیس فیصد قابل کاشت اور رہائشی علاقہ ہے۔ باقی اس ملک کا ستر فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ایک لاکھ مربع کلومیٹر قابل رہائش علاقے میں سات کروڑ جرمن آباد ہیں اور پورے ملک میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جو رات کو بھوکا سوتا ہو۔ یہاں کام کرنے والے تین سے چار لاکھ مہینہ کماتے ہیں اور بے روزگار لوکل آفس سے ڈیڑھ لاکھ کا وظیفہ لیتے ہیں۔ گھر کا کرایہ بجلی گیس کے بل سب گورنمنٹ کی جوابداری ہے۔ وہ ٹیکس اکٹھا کرتی ہے اور ایمانداری سے اپنی عوام پر خرچ کرتی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کو جرمنی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملکی مسائل کا حل ہمیشہ بہتر قانون سازی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ایک اچھا قانون ساز ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کو چند بہترین قانون سازیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں مہنگائی پر زور لگانے کی بجائے مزدور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات کم کرنی پڑیں گی۔ یہاں اٹھارہ سال کا نوجوان لڑکا سرکاری محکمے میں ملازمت کرتا ہے۔ پچاس ساٹھ ہزار ماہانہ تنخواہ اور الاؤنس لیتا ہے بیس سال کی نوکری چار پانچ بچے اور چالیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو کر اگلے ساٹھ سال تک گورنمنٹ سے پنشن لیتا رہتا ہے۔
اگر ایک نوجوان لڑکے کو آپ اٹھارہ سال کی عمر میں پچاس ہزار کی نوکری اور چالیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ کر کے پنشن دے رہے ہو تو ایسے میں شاید کوئی پاگل ہی ہوگا جو کاروبار کرنے کے بارے میں سوچے۔ یہاں بی اے پاس لڑکے مقابلے کا امتحان دیتے ہیں اور بیوروکریٹ بن جاتے ہیں اور پھر پوری زندگی جونک کی طرح مملکت پاکستان کا خون چوستے رہتے ہیں۔ ایک بی اے پاس نوجوان بیوروکریٹ کے دفتر کے باہر جب بوڑھے فیکٹری مالکان کی لائن لگی ہو گی۔ تو انہیں بھی لگے گا کہ زندگی ضائع ہو گئی اب بچوں کو کاروبار کی بجائے افسر بناتے ہیں۔ میرا ایک معصومانہ سوال پاکستان سے ہے کہ اگر وزیراعظم صدر چیف جسٹس آرمی چیف یا آئی جی ساٹھ ستر سال کی عمر میں بہترین کام کر رہا ہوتا ہے۔ تو ایک سکول ٹیچر یا کلرک کیوں اٹھارہ بیس سال کا بھرتی کیا جاتا ہے۔ اگر ہم آرمڈ فورسز کے علاؤہ تمام سرکاری اداروں میں پینتیس سال سے کم عمر بھرتی نہ کریں تو ہماری نوجوان نسل کو پرائیویٹ سیکٹر میں جوہر دکھانے کا موقع مل جائے گا۔ جرمنی میں ایسا ہی کیا جاتا ہے یہاں آپ کو سرکاری دفاتر میں صرف بوڑھے ہی کام کرتے ہوئے ملیں گے۔ جرمن گورنمنٹ سرکاری ملازمین کو گھنٹوں کے حساب سے تنخواہیں دیتی ہے۔ یہاں سرکاری دفاتر ہفتے میں صرف چار دن اور روزانہ چھ گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں کرتے۔ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی حساب سے دی جاتی ہیں۔ پولیس اور فوج کے علاؤہ تمام ملازمین عارضی ہوتے ہیں اور انہیں کسی بھی وقت ایک سال کی اضافی تنخواہ دے کر برخاست کر دیا جاتا ہے۔ یہاں باسٹھ سال سے پہلے کسی کو پنشن نہیں ملتی اور باسٹھ سال کے بعد سرکاری پرائیویٹ کام کرنے والے بے روزگار سب کو پنشن ملتی ہے۔یہاں سرکاری ملازمین ہفتے میں چار دن کام کر کے مہینے کا ہزار بارہ سو یورو کماتے ہیں تو مزدور ہفتے میں چھ دن کام کر کے دو ہزار یورو سے اوپر چلے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں اور دکانوں کے مالکان لاکھوں کماسکتے ہیں اور اسی لیے نوجوان نسل کاروبار اور پرائیوٹ سیکٹر کو ترجیح دیتی ہے گورنمنٹ زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کرتی ہے۔ یہی ٹیکس جرمنی کو دنیا کا امیر ترین ملک بناتا ہے اور جرمنی اپنے ہر شہری کو روٹی کپڑا اور مکان دیتا ہے۔