خواجہ سراءسوسائیٹی
ثوبیہ مہرین
بی ایس کاسمٹالوجی اینڈ ڈرماٹالوجی
گرمیوں کی تپتی دوپہر تھی۔ بازار سے واپسی پے وہ رکشے پے اپنی خالہ کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ رکشے والا دوسری سواریاں بلانے مڑ گایا تھا۔ چلچلاتی دھوپ اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ دھوپ کی کرنوں سے بچھنے کے لئے اس نے اپنے دوپٹے کا کونہ پھیلا کے چہرہ ترچھا کر لیا۔ اچانک ایک زنانہ آواز پر اسنے یونہی مڑ کے دیکھا تو اسکا دل دھک سے جا لگا۔
ریحانہ دوسری جماعت میں تھی جب اس کی کلاس میں نئیے لڑکے کا داخلے ہوا تھا۔ ابھی اس کو ہفتہ بھی نا ہونے کو آیا تھا جب اسے سکول سے خارج کردیا گیا۔ ریحانہ کی ٹیچر دوسری مس کو بتا رہی تھی کہ ہشتم جماعت کے ایک لڑکے نے پرنسپل کو منہاس کے بارے میں بتایا کہ وہ لڑکا نہیں خواجہ سراء ہے جو اس کے گھر کے قریب رہتا ہے۔ جب پرنسپل کو پتہ چلا تو انہوں نے منہاس کو سکول سے نکال دیا۔ ریحانہ نے ان کی باتیں سن لی تھیں۔
"کیا ہوا ہے بیٹے آج آپ ٹفن بھی ایسے لے آئیں اور کھانہ بھی نہیں کھایا؟" ریحانہ کی والدہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا۔ "مماں یہ خواجہ سراء کیا ہوتا ہے؟" اس نے ماں کی آنکھوں میں جھانک کے معصومیت سے پوچھا۔"ارے! یہ کہاں سے سنا آپ نے؟" ان کو فکر ہونے لگی تھی۔ "مما میری کلاس میں نیا لڑکا آیا تھا چوتھے دن پرنسپل نے اس کو سکول سے نکال دیا کہ وہ خواجہ سراء ہے۔ بتائیں نا مما خواجہ سراء برے ہوتے ہیں؟" وہ الجھی نظر آرہی تھی۔ "بالکل نہیں یہ آپ کو کس نے کہہ دیا وہ تو بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اللہ کی بنائی ہر مخلوق اچھی ہوتی ہے۔ خواجہ سراء کوئی ہم سے علیحدہ مخلوق نہیں ہوتے اور نہ ہی مرد اور عورت کی طرح کوئی تیسری قسم۔ بس ایک جسمانی بیماری ہوتی ہے ان میں۔ جیسے کوئی بچہ پیدائیشی اندھا یا گونگا اور بہرا ہوتا ہے"۔ "تو پھر انہیں ایسے کیوں ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ہماری اسلامیات والی ٹیچر کہتی ہیں مسلمان مسلمان بھائی ہیں آپس میں تو وہ بھی تو مسلمان ہیں وہ بھی تو ہمارے بھائی ہوئے نا؟" ریحانہ کو اب دکھ ہونے لگا تھا۔ "یہ بات بالکل درست ہے لیکن سب سے بڑا انسانیت کا رشتہ ہوتا ہے جو ہمیں اسلام سکھاتا ہے۔ دنیا اور اس کی مخلوقات میں اس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالی نے رکھے ہیں، ظاہر ہے کہ آزمائش کے اصول پہ رکھے ہیں۔ ایسے انسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا ہوئے ہیں تو یہ امتحان ہے۔ اس دنیا میں ان کے صبر کا امتحان اور دوسرے دیکھنے والوں کے لیئے اپنے رب کے آگے شکر بجا لانے کا امتحان۔ لیکن ہمارے معاشرے میں انسانیت نا پید ہے۔ لوگوں نے من گھڑت باتیں بنا لیں اور جن کے ہاں ایسا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اسے دھتکارتے ہیں۔ انہیں جائیداد میں حصہ دینا تودور وہ اس کو اپناتے بھی نہیں"۔ اب وہ اسے نرم لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔
اگلی صبح ریحانہ اپنی والدہ کو ساتھ سکول لے گئ کہ وہ منہاس کی سفارش کر سکیں۔ سکول میں ایک اور خواجہ سراء آیا ہوا تھا اور آفس میں پرنسپل سے درخواست کر رہا تھا لیکن پرنسپل صاحب نے ایک نہ سنی اور اسے یہ کہہ کہ آفس سے نکال دیا کہ وہ ایک خواجہ سراء کو ادھر نہیں آنے دے سکتے کہ ان کے سکول کی ساکھ خراب ہوگی اور والدین اپنےبچوں کو یہاں سے لے جائیں گے۔ ریحانہ کی والدہ اس کے پاس گئیں اور ان سے پوچھا کہ منہاس اپ کا کیا لگتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "ایک رات جب میں شادی کی تقریب سے واپس گھر کو آرہی تھی تو اپنی گلی کے نکڑ پہ دیکھا ایک نومولود بلک رہا تھا۔ میں نے تب سے اس کی ذمہ داری اٹھائی۔ میں اسے اس دلدل سے نکالنا چاہتی تھی اسی لیئے اپنی ایک بیگم صاحبہ سے کہلوا کے اس کا داخلہ ادھر کرایا۔ لیکن میں بھول گئی جس بچے کو اس کے ماں باپ صرف اس وجہ سے چھوڑ گئے کہ وہ ایک خواجہ سراءکے والدین نہ کہلائیں تو باقی معاشرے سے میں کیا توقع کر سکتی ہوں"۔ ریحانہ کی والدہ نے اسے اس سکول سے نکال کے دوسرے میں ایڈمیشن لے دیا اور اس کے بعد سے اسے منہاس کی کوئی خبر نہ آئی۔
وہ بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ وہی تھا۔ اتنے سال ریحانہ سوچتی تھی کہ منہاس کا کیا بنا ہوگا اسے کسی اور سکول میں داخلہ ملا ہوگا یا نہیں۔ وہ پڑھ بھی پایا ہوگا یا وہ بھی ہم جیسوں کی بنائی دلدل میں پھنس کے رہ گیا ہوگا۔ اور آج اس پہ حقیقت عیاں ہوگی۔ منہاس چہرے پے میک اپ کیئے زنانہ ڈھب سے چلتا بالوں میں لگے پراندے کو نزاکت سے ہاتھ میں گھماتا جا رہا تھا اور اپنے ساتھ والی سے اونچی آواز میں بات کرتے یقینا کسی شادی کی رونق بننے جا رہا تھا۔ وہ اسی محلے میں پلا تھا جسے ہم جیسوں نے "خواجہ سراء سوسائٹی" قرار دے کر پوری دنیا سے علیحدہ کر رکھا تھا۔ ریحانہ معاشرے کے کھوکھلے پن پہ غصہ آنے لگا اور وہ اپنے آنسو حلق سے اتارنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔