ایک لفظ دو زندگیاں
ملک عمر محبوب
بی بی اے
ہانیہ اور فراز کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن ہانیہ کچھ جذباتی لڑکی تھی۔ اکثر جذبات میں غلط فیصلے کر لیتی تھی۔ ایک روز فراز کو اس کا ایک برسوں پرانا دوست زین ملا جسے وہ پیار سے زینی کہہ کر بلاتے تھے۔ فراز نے زین سے اس کا نمبر لیا جو کہ اس نے زینی کے نام سے سیو کیا۔ لیکن غلطی سے زینب لکھا گیا۔ فراز نے شاید اس پر غور نہ کیا یا پھر نام درست کرنے کی زحمت نہ کی۔ اکثر جب زین کی کال آتی تو فراز کمرے سے باہر جا کر بات کرتا۔ جب بھی کال آتی سکرین پر زینب لکھا ظاہر ہوتا۔ ہانیہ نے سمجھا کہ شاید فراز کسی زینب نامی لڑکی سے بات کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور ہانیہ کا فراز کے ساتھ رویہ بدلنے لگا۔ ہانیہ خفا خفا رہنے لگی۔ جب بھی فراز نے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہی جواب دیا کہ وجہ تم خود بخوبی جانتے ہو۔ کچھ عرصہ تک بات بڑھتے بڑھتے ہانیہ کی طرف ناراضگی تک جا پہنچی۔ اور ہانیہ اپنے میکے چلی گئی۔ کچھ دنوں بعد فراز کے گھر دونوں کے گھر والے جمع ہوئے تا کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ ہانیہ کے اپنے میکے جانے سے کچھ روز قبل شہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے فراز نے اپنی حفاظت کے لیے ایک پستول خریدی تھی۔ جو کہ فراز کے کمرے کی دراز میں رہتی تھی۔ جس کی ایک چابی ہانیہ کے پاس بھی تھی۔ جیسے ہی بات چیت شروع ہوئی اور ہانیہ سے وجہ پوچھی تو ہانیہ نے کہا کہ فراز ایک زینب نامی لڑکی سے بات کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ کافی ماہ سے چل رہا ہے۔ لہٰذا مجھے فراز سے طلاق چاہیے اور کچھ نہیں۔ نہ ہی میں کسی کی بات سنوں گی نہ ہی صفائی۔ سب نے فراز سے کہا کہ تم اپنی صفائی میں کیا کہنا چاہو گے۔اتنے میں ہانیہ کمرے میں گئی اور پستول لے آئی۔ اس نے پستول اپنے سر کے قریب رکھ لی اور بس ایک ہی بات کہ مجھے کوٸی صفائی نہیں سننی بس مجھے ابھی اور اسی وقت طلاق چاہیے۔ مجھے معلوم ہے تم کوئی نہ کوئی کہانی گھڑو گے۔
اور ساتھ ہی یہ دھمکی دی کہ اگر کسی نے کچھ بولنے یا میرے قریب آنے کی کوشش کی تو میں خود کو گولی مار لوں گی۔ فراز ہانیہ کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا۔ اس لیے ہانیہ کی جان اسے اپنے سے بڑھ کر عزیز تھی۔ مجبوراً دل پر پتھر رکھ فراز نے یہ کہا کہ میں اپنے ہوش و حواس میں ہانیہ کو طلاق دیتا ہوں۔ اس نے یہ لفظ تین مرتبہ دہرائے اور اس کی آنکھوں سے آنسو کسی ساون کی برکھا کی مانند بہنے لگے۔ کچھ دیر کے لیے گھر میں ایسے خاموشی چھا گئی جیسے یہاں کوئی موجود نہ ہو۔ اس کے بعد فراز کے بھائی نے اس کا موبائیل فون اٹھایا اور اس زینب کے نام سے محفوظ نمبر پر کال کی اور فون لاوڈ سپیکر پر لگا دیا۔ دوسری طرف سے جب کال اٹھائی گئی اور مردانہ آواز میں السلام علیکم فراز جانی کیسا ہے کی آواز آئی تو فراز کے علاوہ تمام لوگ حیران ہو کر رہ گئے۔ اس وقت ہانیہ کھڑی پچھتا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے بھی آنسوجاری ہو گئےاور ندامت سے اس کا سر جھک گیا۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ہانیہ کی جلد بازی کی وجہ دونوں کی زندگی برباد ہو گئی اور دونوں خاندانوں میں ہمیشہ کے لئے جدائی پیدا ہو چکی تھی۔