حِرص۔۔۔
ثوبیہ مہرین
ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ سائنسز
”اماں یہ مرچکا ہے تم اس کو اب لے کر آرہی ہو"۔" نہ ڈاکٹر صاحبہ! ایہہ ساہ گھِندا پیا اے۔ تُساں ایکوں ڈیکھو تاں سہی"۔
“اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ جب جی چاہتا ہے منہ اٹھا کے آجاتے ہیں، ٹائم دیکھا ہے؟۔ ۔۔لے جاؤ اس کو"۔
"ہٹو اماں رش نہ کرو۔۔۔ پہلے ہی سر میں بہت درد ہے"۔ اوپر سے نرس بولی تھی۔
وہ اپنی بچی کو مردہ حالت میں لیے ہسپتال سے باہر نکل آئی۔ تھوڑی دیر بعد دو لڑکیاں اس کو ڈھونڈتی باہر آئیں۔ انہوں نے شکایت لگانے کے لیے مدد کرنے کا بھرپور اعتماد دلایا۔۔۔۔ مردہ لبوں میں جنبش پیدا ہوئی ہی تھی کہ ساتھ ٹھہرا شوہر سرد نگاہ گھوماتے بولا: "ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے میڈم! ہماری بچی کا اچھے سے معائنہ کیا گیا لیکن اللہ کی جو مرضی"۔
رکشے میں بیٹھتی ماں کا چہرہ بے رنگ تھا، لیکن اپنے بچے کو دیکھتی آنکھوں میں مستقبل کے کئی خواب اور امیدیں تھیں جو اب اسکے ساتھ ہی دفن ہوجانی تھیں۔ وہاں لوگوں سے کوئی شکوہ نا تھا ہاں مگر۔۔۔سیاہ موتی میں آخری بار جی بھر کے دیکھ لینے کی حرص۔۔۔ کہیں کسی کونے میں چھپی تھی۔۔۔جو میں نے محسوس کی تھی۔۔۔