ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں
موضوعِ تحریر بظاہر تو اقبال کی ایک نظم کا چھوٹا سا مصرع ہے۔ مگر یہ چند الفاظ اس خوفناک سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمان آج پستیوں کا شکار ہیں۔ذرا تاریخ کے اوراق پلٹئے اور آج سے چند صدی قبل کا منظر نامہ ملاحظہ فرمائیے ! جب مسلم تہذیب اپنے بام عروج پر تھی۔ آپ کو ایک شاندار ماضی ملے گا جس میں آپکو جہاں علم دین کے جبال العلم علماء ملیں گے وہیں سائنسی علوم و فنون اور فنون لطیفہ کے اپنے وقت ک
سٹیٹس اپڈیٹ
میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ میرے موبائل فون نے مختصر گھنٹی کے ذریعے اطلاع دی کہ آپ کام کرنا چھوڑیں اور ادھر توجہ فرما ئیں آپ کے لئے ایک پیغام ہے۔ میں نے بغیر کسی حیل و حجت کے موبائل کا حکم مانا اور پیغام پڑھنا شروع کر دیا۔ لاہور سے میرے ایک دوست نے اپنی شادی کا کارڈ وٹس ایپ پر مجھے بھیجا تھا اور ساتھ ہی شادی کی تقریب میں شریک ہونے کی پرزور اپیل کی تھی۔
پاکستانی معیشت اور جدید سائنسی علوم
خُداوندِ کریم نے انسان کو " اشرف المخلوقات " کا درجہ دیا ہے اور اُسے عقل و شعور سے نوازا تاکہ وہ حق و باطل اور اچھے بُرے میں تمیز کر سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور آپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کی پہلی آیت بھی حصولِ علم کے متعلق تھی۔"اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا فرمایا"۔ علم کے بغیر انسان وہ منازلِ طے نہیں کر سکتا ہے جو
عرب ریڈنگ چیلنج
کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں لیڈر کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔لیڈر نہ صرف قوم کو مسائل کے حل کے لئے ایک لائن آف ایکشن فراہم کرتا ہے بلکہ اپنی بصیرت ، دانائی اور قوت فیصلہ کو برؤے کار لاتے ہوئے قوم کی ایک روشن مستقبل کی طرف راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ایک لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ اسے تاریخ کا شعور اور دنیا میں آنے والی سیاسی ، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا گہرا ادراک ہوکیونکہ ان صلاحیتوں کے بغیر مسائل کا دیر پا
میرا کشمیر
یہاں پر پھول کهلتے تھے۔میں نے دیکھا کہ شفق پر یہاں مسکراہٹوں کا جلوہ تھا۔منظر یوں بدل گیا کہ سب ختم ہو گیا۔۔۔اب میں دیکهتى ہوں کہ دشمن نے میرے کشمیر کو گهیرا ہے۔یہاں پر ظلم و بربریت ہے۔یہاں کى درسگاہوں کو قتل گاه بنایا جا رہا ہے۔
اک بار تم مجھ سے روٹھے تھے
مجھے وہ لمحہ اب تک جاناںیاد ہے جیسے ہو کل کی بات
کوئی سلسلہ نہیں جاوداں
کوئی سلسلہ نہیں جاوداںتیرے ساتھ بھی... تیرے بعد بھی
منصفانہ ترسیل
اس دنیا میں ایک عام تصور رائج ہے کہ محرومی اور ناکامی کو ایک دوسرے سے جوڑا جاتا ہے - اور اس تصور پر ایمان لاتے ہوئے ہم یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ اس دنیا میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی لحاظ سے محروم ہوتا ہے - بظاہر بہت زیادہ کامیاب نظر آنے والا انسان بھی اپنی زندگی کی کسی نہ کسی کمی پر کڑھتا ضرور ہے - جب ہر شخص اپنے اپنےلاحاصل کا اسیر ہے تو ناکامی اور کامیابی کو ماپنے کے لئے محرومی کا پیمانہ اس
ایک لفظ دو زندگیاں
ہانیہ اور فراز کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن ہانیہ کچھ جذباتی لڑکی تھی۔ اکثر جذبات میں غلط فیصلے کر لیتی تھی۔ ایک روز فراز کو اس کا ایک برسوں پرانا دوست زین ملا جسے وہ پیار سے زینی کہہ کر بلاتے تھے۔ فراز نے زین سے اس کا نمبر لیا جو کہ اس نے زینی کے نام سے سیو کیا۔
خواجہ سراءسوسائیٹی
گرمیوں کی تپتی دوپہر تھی۔ بازار سے واپسی پے وہ رکشے پے اپنی خالہ کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ رکشے والا دوسری سواریاں بلانے مڑ گایا تھا۔ چلچلاتی دھوپ اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ دھوپ کی کرنوں سے بچھنے کے لئے اس نے اپنے دوپٹے کا کونہ پھیلا کے چہرہ ترچھا کر لیا۔ اچانک ایک زنانہ آواز پر اسنے یونہی مڑ کے دیکھا تو اسکا دل دھک سے جا لگا۔
نوجوان نسل کے مسائل اور ان کا حل
سوشیالوجی کے مطابق افراد کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ اجتماعی زندگی کی خوب صورتی کے لیے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہوتی ہے خصوصاً نوجوان نسل کا ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اگر معاشرے کے نوجوانوں میں ان صفات کا خیال نہ رکھاجائے تو اجتماعی زندگی مختلف پریشانیوں الجھنوں اور مختلف مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے
میں ہی کیوں
"میں ہی کیوں"الفاظ کا ایسا مجموعہ جو کسی کی بھی زندگی کی راہیں تاریک بنا سکتا ہےاور بس تھوڑے سے صبر اور بہت سی ہمت سے کسی کو زندگی کی نوید سنا سکتا ہے ۔