سٹیٹس اپڈیٹ
محمد انور فاروق
ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز
میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ میرے موبائل فون نے مختصر گھنٹی کے ذریعے اطلاع دی کہ آپ کام کرنا چھوڑیں اور ادھر توجہ فرما ئیں آپ کے لئے ایک پیغام ہے۔ میں نے بغیر کسی حیل و حجت کے موبائل کا حکم مانا اور پیغام پڑھنا شروع کر دیا۔ لاہور سے میرے ایک دوست نے اپنی شادی کا کارڈ وٹس ایپ پر مجھے بھیجا تھا اور ساتھ ہی شادی کی تقریب میں شریک ہونے کی پرزور اپیل کی تھی۔ میں نے سوچا کہ کسی زمانے میں دور سے آنے والے دعوتی کارڈ بذریعہ ڈاک آتے تھے اور قریب سے آنے والے کارڈ کسی مخصوص شخص کے ذریعے تقسیم کروائے جاتے تھے۔ پھر کارڈ لے کر آنے والے شخص کی تواضع کرنا اور اسے خوشی کی خبر لانے پر کچھ رقم دینا ایک خوبصورت روایت تھی۔ مگر میں نے تو کارڈ موصول ہی موبائل فون پر کیا تھا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب میں اپنی روایت سے جبرا دور کر دیا گیا ہو ں۔ خیر اس کا گناہ ہو یا ثواب یہ میرے دوست کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔کیا ٹیکنالوجی انسان کو روایت سے دور کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ایک روایتی انسان کا مستقبل کیا ہو گا؟
خیر جی وقت آنے پر لاہور شادی کی تقریب میں شمولیت کے لئے رخت سفر باندھا اور ٹرین میں بیٹھ گیا۔ ٹرین روانہ ہوئی تو کھڑکیاں پردہ سیمی بن گئیں اور مناظر تیزی سے تبدیل ہونے لگے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد یکسانیت محسوس ہونا شروع ہو گئی اور سفر کی طوالت کا خوف غالب آنے لگا۔ میں نے سوچا کہ چلو جی بہلانے کے واسطے کسی سے گپ شپ کرتے ہیں۔ جب اردگرد نظریں دوڑائیں تو پتہ چلا کہ ہر کوئی اپنے اپنے موبائل فون کے ساتھ مصروف ہے۔ کوئی کال ملائے باتیں کر رہاہے تو کوئی گیم کھیل رہا ہے اور کوئی مرد مومن جہاں نما یعنی انٹرنیٹ کے سمندر میں غوطہ زن ہے اور یقینا ان میں سے کوئی بھی عقلمند کتاب پڑھنے کی غلطی نہیں کر رہا تھا کہ کہیں علم حاصل ہی نہ ہو جائے۔ پتہ نہیں لوگ علم حاصل کرنے سے اتنا کیوں ڈرتے ہیں۔ اب تو علم حاصل کرنا فر ض کفایہ بن چکا ہے کہ معاشرے میں کسی ایک نے حاصل کر لیا تو بہت ہے۔ اور میری یہ خوش قسمتی تھی یا بد قسمتی کہ لاہور تک کوئی شخص بھی اپنی مصروفیت سے فارغ نہ ہوا۔ مجھے سوچنے اور اپنے آپ سے باتیں کرنے کابھرپور موقع مل گیا۔ میں نے اس دن خوب سوچ سوچ کر اپنے آپ سے ساری ممکنہ فضول باتیں کر ڈالیں۔
میں جس قسم کی کیفیت سے دوچار تھا اہل علم کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہو سکتیں ہیں مثلا جنریشن گیپ ، ڈیجیٹل ڈیوا ئڈ، دقیا نوسیت یا محض ذہنی خلل۔ پڑھے لکھے جدید حضرات کے مطابق زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنا ضروری ہے اور ٹیکنالوجی کی غلامی ترقی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اب اگر علم، روایت، دانائی اور کتابیں زمانے سے پیچھے رہ گئے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی روزی روٹی کے مسائل کے حل کے لئے یہ کون سا سود مند رہ گئے ہیں۔ ہم انسان ہیں کوئی چیونٹی تھوڑا ہی ہیں جو اپنے سے پانچ گنا زیادہ وزن اٹھا لیں۔ زمانے کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ سر پر جتنا بوجھ کم ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہوتاہے؟ اب تو حالات یہ ہیں کہ کوئی غلطی ہو جائے تو لوگ توبہ کی بجائے فیس بک سٹیٹس نصیحت آموز پوسٹ کے ذریعے اپڈیٹ کر دینا کافی سمجھتے ہیں۔ پہلے لوگ پوچھتے تھے کہ خیر ہے آج بڑے اداس لگ رہے ہو اب خود سٹیٹس اپڈیٹ کر کے بتانا پڑتا ہے کہ فیلنگ سیڈ۔ اب تو گھر والوں کو بھی فیس بک سٹیٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بندہ اداس ہے اس کی شادی کا سوچو۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہو گئے ہیں یا پھر ہم نے ترقی کرنے کے لئے زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ خیر ان ہی فضول باتوں کے سہارے سفر کٹ گیا اور خدا خدا کر کے لاہور آگیا۔
میں نے اپنا سامان اٹھایا اور تیزی سے ریلوے اسٹیشن سے باہر آگیا۔ میرا دوست مجھے لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ سلام دعا سے پہلے ہی اس نے جھٹ سے موبائل فون نکالا اور میرے ساتھ ایک سیلفی لےکر پوسٹ کر دی۔ میرا چہرہ حیرت کی تصویر بن گیا کہ ایسے موقع پر تو کافی دیر حال احوال اور رسمی کلمات پر لگ جاتی تھی مگر اب ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے سب دوستوں کو تمہارے آنے کی اطلاع تمھاری تصویر کے ساتھ کر دی ہے شام تک سب دوست آ جائیں گے خوب ہلہ گلہ ہو گا۔ میں نے سوچا اس ترقی یافتہ دور میں اطلاع تو فورا پہنچ جاتی ہے مگر سب کو آنے میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ شائد ترقی کے سفر میں بندے کے پہنچنے سے زیادہ اطلاع پہنچانے کی رفتار اہم ہے۔ شام کو سب دوست آ گئے میں بہت پر جوش تھا کہ خوب گپیں لگیں گی اور یونیورسٹی دور کی پرانی یادیں تازہ ہوں گی کیونکہ یہی سب کرنے کے لئے میں اتنی دور سے آیا تھا مگر محفل کسی اور ہی رنگ میں تھی۔ سب ایک دوسرے کے قریب تو بیٹھے تھے مگر اپنے اپنے موبائل فون پر مصروف۔ درمیان میں خال خال ہی کوئی بات ہوتی تھی۔ میں حیرت کا اخبار بنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ ترقی کے اس سفر نے سب کو ایک دوسرے سے کتنا دور کر دیا ہے۔
شادی کا ہنگامہ بھی خوب رہا۔ تمام تقریبات حسب معمول مقررہ وقت سے کافی دیر بعد شروع ہوئیں۔ شادی کی ہر رسم کے مو قع پر شرکاء اور دعائیں دینے والے کم اور سجے سنورے فوٹو گرافرز زیادہ تھے۔ ہر کوئی اپنے موبائل فون کے کیمرہ سے دھڑا دھڑ تصویریں بنا رہا تھا۔ اور باقی شادی حال کی انتظامیہ اور ویٹر تھے وہ بھی اس فکر میں غلطاں کہ رات دس بجے سب کچھ بند کرنا ہے۔ نہ کوئی باتیں تھیں نہ ہی ایک دوسرے کے حال احوال۔ کھانا شروع ہو ا تو عوام کھانے کی تصویریں بنانے میں مشغول ہو گئی اور سب نے کھانا خوب ٹھنڈا کر کے کھایا اور سٹیٹس اپڈیٹ کیا فیلنگ کول۔ خیر شادی کا ہنگامہ تو ختم ہو گیا اور میرے دماغ پر سوچ کی گہری سلوٹیں چھوڑ گیا۔ اب کئی دن لگیں گے مجھے یہ سلوٹیں سیدھی کرنے میں۔ میں ایک گاوں کا باسی ۔۔۔ جہاں ابھی زندگی اتنی تیز رفتار نہیں ہوئی اور جہاں ابھی روایت کی رمق باقی ہے ۔۔۔ شائد ہی اس موبائل فون والی جدید تہذیب اور ترقی کا کوئی مطلب نکالنے میں کامیاب ہو پاوں ۔ ابھی شائد میرے جیسے لوگوں کو زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگے گا اور شائد روزی روٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے انسان اور اس کے "سٹیٹس" کا ہر لحاظ سے اپڈیٹ ہونا ضروری بھی ہے۔