پاکستانی معیشت اور جدید سائنسی علوم

پاکستانی معیشت اور جدید سائنسی علوم

محمد ساحل

ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر انجیئنرنگ

 

خُداوندِ کریم نے انسان کو " اشرف المخلوقات " کا درجہ دیا ہے اور اُسے عقل و شعور سے نوازا تاکہ وہ حق و باطل اور اچھے بُرے میں تمیز کر سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالٰی نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور آپنی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کی پہلی آیت بھی حصولِ علم کے متعلق تھی۔"اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے پیدا فرمایا"۔ علم کے بغیر انسان وہ منازلِ طے نہیں کر سکتا ہے جو انسانی ارتقاٗ کا لازمی جُز تصور کی جاتی ہیں۔انسان کےلئے تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی اور خوراک ضروری ہے۔تعلیم معاشرے کو مہذب بناتی ہے، جینے کا اطوار سکھاتی ہے۔ ایک پڑھی لکھی قوم ہی باوقار ،تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کوفروغ دے سکتی ہے۔جب مؤرخ دنیا کی تاریخ لکھے گا تو اس میں شامل ہو گا کہ جن اقوام نے تعلیم و تربیت پر توجہ دی وہ اوجِ کمال پر پہنچیں اور جن قوموں نے اِس حق سے اپنی نسل کو محروُم رکھا اور قلم کی جگہ ہتھیار کو ترجیح دی وہ فقط جنگی جنون کا طوق پہنے محرُومِ تماشا بن گئیں۔

دنیا بھر میں آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے۔ کسی جگہ یہ انسان اپنے کمالِ علم سے دوسری کہکشاوؤں کے سفر پر جانے کیلئےآمادہ نظر آتا ہے تو کہیں سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں میں موجوُد آبی مخلوق کو تسخیر کرنے میں کوشاں اور کہیں نِت نئی مُعجزہ نُما ایجادات سے دنیا بھر کو حیرت میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سائنس کے میدان میں جتنی ترقی ہوئی ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ہو گی چاہے وہ ماضی قریب ہو یا بعید، چاہے وہ فیثا غورث سے لے کر سر آئزک نیوٹن تک، موسیٰ بن الخوارزمی سے لے کرجارج کینٹر تک ،گیلیلیو سے لے کر آئن سٹائن تک اور بو علی سینا سے لے کر الیگزینڈر فلیمنگ تک اور بھی ان کے علاوہ بڑے نام ہیں، سب نے سائنس کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔وہ لوگ اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرتے تھے۔ اور ہمارا مسلئہ کیا ہےکہ ہم نے (مسلمانوں) نے دسویں صدی کے بعد کبھی ان چیزوں کو خاص اہمیت ہی نہیں دی۔اب تھوڑا سا ان بڑے ناموں کو پڑھ لیں:

سقراط کو کہا گیا کہ وہ جھوٹ بولے اور اپنا علم آگے کسی کو نہ سکھائے تو سقراط نے جھوٹ بولنے کی بجائے سچ بولنے کو ترجیح دی اور زہر کے پیالے کو قبول کر لیا۔ جب رومن افواج یونان میں داخل ہو گئیں اس وقت ارشمیدس اپنے گھر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے میں مصروف تھا اور ایک سپاہی اس کے پاس آیا اور بادشاہ کے پاس لے جانے کےلیے اصرار کیا تو اس نے اپنا کام چھوڑنے پر موت کو ترجیح دی۔ اس طرح بو علی سینا نے الجبرا سیکھنے کے لئے بادشاہ کی لائبریری استعمال کرنے کی خاطر پہلے بادشاہ کے مرض کولنج کا علاج دریافت کر لیا اور اس میں ایسی مہارت حاصل کی کہ اپنی کتاب " canon of medicine” لکھ ڈالی اور اس کتاب کو یورپینز نے تقریباً 800 سالوں تک اپنی جامعات کے سلیبس میں شامل کیے رکھا۔نویں صدی عیسوی محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے علمی کارناموں کی صدی ہے ۔الخوارزمی جس نے علمِ ہندسہ اور الجبرا کے میدان میں کارنامے انجام دیے جن سے دنیا آج تک فیض یاب ہو رہی ہے اور الخوارزمی ہی تھا جس نے اپنی نگرانی میں 70 جغرافیہ دانوں کی ایسی ٹیم تشکیل دی جس نے دنیا کا پہلا نقشہ ترتیب دیا یہ تمام کارنامے عباسی خلیفہ مامون الرشید کے قائم کردہ بیت الحکمت میں سر انجام دیے گئے اور یہی وہ علم پرور سوچ تھی جس کی وجہ سے خلافتِ عباسیہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت تھی۔ وہ ایک سکاٹ لینڈ کے غریب کسان کا بیٹا تھا۔ کسان نے ایک امیر باپ کے بچے کو دلدل سے باہر نکالا اور بدلے میں اس امیر شخص نے اس کو پڑھانے کا ذمہ لیا اور آگے چل کر اس بچے نے لاکھوں زندگیاں بچائیں اس بچے کو دنیا آج الیگزینڈر فلیمنگ کے نام سے جانتی ہے اور اس ویکسین کا نام پنسلین تھا جس نے جنگ عظیم دوم میں لاکھوں انسانوں کی جان بچائی۔

آپ زیادہ دور بھی نہ جائیں سٹیفن ہاکنگ ، آئن سٹائن کے بعد دنیا کا بڑا دماغ جس کو صرف 21 سال کی عمر میں 2 سال کی زندگی باقی بتائی گئی اس نے معذوری کے باوجود کامیاب ہو کر دکھایا ،۔ اگر وہ میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہے، تو پھر ہم زندہ سلامت جو بول سکتے ہیں، جو چل سکتے ہیں، جن کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، جو خود کھا پی سکتے ہیں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔  وہ دنیا کا واحد انسان تھا جو پلکوں سے بولتا تھا اور اس کی لکھی کتابوں نے دنیا کو دنگ کر کے رکھ دیا اور ایک نئی دنیا کی جانب راہ دکھائی۔ یہ 1970 کی بات ہے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک استاد نے ایک طالب علم سے کہا ۔۔۔ "بل! یاد رکھو، تم زیادہ سے زیادہ ایک ٹرک ڈرائیور بن سکتے ہو"۔ اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنے لیے ٹیکنالوجی کے میدان کا انتخاب کیا اور کمپیوٹر کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب برپا کے رکھ دیا۔  یہ انسانی تاریخ کا واحد آدمی تھا جو صرف 38 سال کی عمر میں دنیا کا امیر ترین شخص بنا اور مسلسل 12 سال تک یہ اعزاز اپنے پاس رکھا اور اس کے متعلق امریکی صدر بل کلنٹن نے فخریہ کہا کہ  "ہم بل گیٹس کی قوم ہیں"۔ 2004ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کمرے میں تین نوجوان رہتے تھے۔ان تینوں میں سے "مارک زکربرگ" سب سے زیادہ نالائق، سست اور شرمیلا تھا یہ اس وقت بمشکل 19 برس کا تھا۔ 1984ء میں نیویارک کے ایک گاؤں میں دندان ساز کے ہاں پیدا ہونے والا مارک اسکول میں نالائق تھا اور یہی نالائق 2002ء میں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچا، کمپیوٹر پروگرامنگ اس کا جنون تھا مارک نے 2004ء کے شروع میں اپنے ہاسٹل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر "فیس بک" نامی ایپ بنا ڈالی اور آج دنیا کا پانچواں امیر ترین شخص ہے۔

24 فروری 1955ء کو جنم لینے والا بچہ جسے اس کے والدین کے دوست نے adopt کر لیا۔  نئے والدین نے اس کا نام اسٹیو پال جابز رکھا اور اس نے آگے چل کرکمپیوٹر  ہارڈ ویئر کے میدان میں انقلاب برپا کے رکھ دیا ۔ یہ وہ شخص تھا جس نے دنیا کو ٹچ اسکرین سے متعارف کرایا، ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس نے لوگوں کے سوچنے کے انداز بدل ڈالے۔ اوبر ایک ٹیکسی کمپنی جس کی ایک بھی اپنی ٹیکسی نہیں ہے لیکن پھر بھی دنیا کی بڑی ٹیکسی کمپنی ہے اور وہ ملین بلین کا منافع کما رہی ہے ۔اس طرح ائیر بس جس کے پاس اپنی 10 مرلے کی عمارت نہیں ہے پھر بھی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے ۔

ان لوگوں نے اپنی محنت، قابلیت، ذہانت اور سچ کی لگن کے ذریعے ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابی حاصل کر کے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ اور ان میں سے ہی بہت سوں نے اپنے ملکوں کی معیشتوں کو بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ یہ سب ہم پانچویں جماعت سے پڑھتے آ رہے ہیں اور پھر بھی پڑھ کر، جان کر ہم نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور ہم میں سے کوئی اس طرف اپنے ذہن پر کوئی زور نہیں ڈالے گا۔ آج ہمارے ملک پاکستان کے جو معاشی حالات ہیں وہ سب آپ کے سامنے ہیں اور آج ضرورت اس امَر کی ہے کہ ہم بھی پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں۔ ہم پر یہ فرض ہے کہ آج وطنِ عزیز پاکستان جن مشکلات میں گِھرا ہوا ہے اور مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اس سے نکالنے کے لیے بھرپور کوشش کریں کیونکہ باشعور اقوام ابتدا ہی سے اپنی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ آج کا تعلیم یافتہ طِفل کل کو اِنکے مُلک کا روشن مُستقبل بنے گا اور مُلک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریگا۔

اس کڑے وقت میں

ارض وطن کی بقا مانگتا ہوں