سیاست زندگی ہے!
آفتاب سحر
ڈیپارٹمنٹ آف فزکس
“عوام کے حق میں بدترین جمہوریت بھی بہتر ہے"
ایک باشعور ترقی یافتہ معاشرے میں اگر اس بات کا سروے کرایا جائے تو ہر شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ" عوام کے حق میں بدترین جمہوریت بھی بہتر ہے "۔لیکن اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑے ادارے"یونیورسٹی" کے طلباء جو کہ باقیوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور ہوتے ہیں میں یہ سروے کرائیں تو 90فیصد لوگ اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ہم کیوں اتنے بے شعور ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی شعور کی کمی اور ہمارا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے ۔ہم غیر سیاسی لوگ ہیں۔ مگرغیر سیاسی تو جانور ہوتے ہیں ۔ کیا ہم جانور ہیں؟ ہم پر جب ظلم ہوتا ہے ہم آواز نہیں اٹھا سکتے۔ طاقتور ہمارا حق چھین لے ہم اس کا مقابلہ نہیں کرتے کیونکہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے۔ سماج، معاش اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔یہ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ہم لوگ سیاست کو نظر انداز کر کے معاش اور سماج دونوں کو تباہ کر رہے ہیں۔سیاسی ہونا ہر انسان کا حق ہے۔سیاست سے مراد زندگی جینے میں پارٹیسپیٹ کرنا ہے۔سیاسی ہونا سے مراد شعور والا ہونا تخلیق کار ہونا فیصلہ ساز ہونا اور اگر کوئی فیصلہ کسی انسان کی مرضی کے خلاف اس پر مسلط کر دیا جائے تو اس سے انکار کرنے والا ہونا اور علم کی بات کرنے والا ہونا ہے۔ ظلم کو دیکھ کر خاموش ہو جانا سب سے بڑا ظلم ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں ایسے مظلوم معاشرے میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں ہمیں اندھا ،بہرا اور گونگا بنا کر رکھا گیا ہ۔ ے جہاں ظلم تو ہوتا ہے لیکن اس ظلم کو کوئی ظلم کہنے کی طاقت نہیں رکھتا۔اس پر کیا خوب کسی نے کہا ہے کہ
جو سچ کہوں تو برا لگے جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زد میں ہے یہاں بات کرنا حرام ہے
ہمارے معاشرے میں لوگوں کا creativity سے یقین ہی اٹھ گیا ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزیں جیسی چلتی آ رہی ہے بس ویسے ہی ہیں اور ایسی رہیں گی اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اگر کوئی سوال اٹھا دے کہ یہ حقیقی سچائی انسان کو کیسے معلوم ہو جاتی ہے؟ جب کہ انسان کی نارسائی کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اپنی دو آنکھوں سے خود کو بھی دیکھنے سے قاصر ہے؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس کیوں اور کیسے کے سوال کرنے والے کو مرتد، ملحد اور کافر کہہ کر جیون سے آزاد کردیا جاتا ہے۔ایسے معاشرے میں ہم کیا کر سکتے ہیں جہاں سوال کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے سوال کرنے والے کو ڈھونڈا جاتا ہے اور پھر ۔۔۔سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم سے یونین سازی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ہم فیصلہ سازی کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ سیاست کا حق چھین لیا گیا یعنی زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا گیا ہےاور اس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ ہم لاچار ہیں ہماری زندگی کے فیصلے کوئی اور کریں گے۔
یہ جیون بھی کوئی جیون ہے
آگ لگے اس جیوں کو۔۔۔
ان غلط اقدام کی وجہ سے ٹیم ورک کا خاتمہ ہوا ہے،طلباء میں کو آپریشن اور کو لیبریشن کا عنصر ختم ہوا ہے۔خود اعتمادی میں کمی ہے آج کسی بھی مثبت سرگرمی میں وہ فیصلہ سازی کرنے سے قاصر ہیں۔مسابقت کی ایک دوڑ میں دوسروں کو روندتے ہوئے آگے نکلنا سکھایا جا رہا ہے۔ اگر اسے منافقت کہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔اس سے نہ صرف طلبہ کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ معاشرے پر بھی ایک منفی اثر ہوتا ہے کہ قابل اور پڑھا لکھا طبقہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہےاور جس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ سیاست سے کنارہ کشی کر لیں ہے وہاں جاہل لوگ پڑھے لکھوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جاگیر دار اور سرمایہ دار کم پڑھے لکھے لوگ خاندانی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں اور سیاست پر قابض ہیں۔اور ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک سیاستدان چاہے جتنا کرپٹ ہو جائے وہ عوام کے حق میں ایک جرنیل،ایک جج اور ایک بیوروکریٹ سے بہتر ہے۔ یہاں پر سیاستدان کا احتساب بہت جلد ہوتا ہے اور اس کا ووٹر کرتا ہے۔ سیاست دان کبھی بھی اپنے حلقے کی عوام کا برا نہیں چاہتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ووٹ دیں گے تو اس کے پاس پاور ہے۔ وہ دن رات کوشش کرتا ہے اس کے حلقے کے لوگ اس سے خوش ہو جائیں کیونکہ ان لوگوں کے بغیر وہ صفر ہے۔ہمیں اپنے سیاستدانوں کے ساتھ جڑے رہنا چاہیے انہیں بار بار یاد دلانا چاہئے کہ یہ ہمارے مسئلے ہیں اور یہ ہماری ترجیحات ہیں وہ کبھی بھی اپنے ووٹر کو ناراض نہیں کریں گے اس کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ کوئی شخص بھی فرشتہ نہیں ہوتا برائیاں ہر شخص میں موجود ہوتی ہیں اور جب آپ کے مخالفین زیادہ ہوں تو وہ زیادہ اجاگر ہوں گی اور سیاست میں یہ چیز عام ہوتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں آئین اور قانون ہمارے لیے سب سے مقدم ہے۔ آئین سازی کا اختیار عوامی نمائندوں کے پاس ہےاور آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سب قابل احترام اور مقدم ہیں۔