دہرا معیار کیوں؟
آمنہ تحریم
ڈیپارٹمنٹ آف کیمسٹری
ہماری دنیا کے "سوکالڈ"تہذیب یافتہ لوگوں کو تہذیب کا پرچار کرتے دیکھ میں نے ایک بات محسوس کی ہے کہ ایسے لوگ بڑے منافق ہوتے ہیں ۔ہم صرف کہانیوں کی حد تک زندگی کو آئیڈیل دیکھنا چاہتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں اگر کوئی ہمیں یہ موقع دے تو ہم اسے پہلی فرصت میں "رد" کر دیتے ہیں ۔ہم تخیل کی حد تک "محبت بھری " کہانیوں کو فینٹاسائز کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے سامنے حقیقت میں کوئی ایسا منظر آ جائے تو ہم اس شخص پر زندگی تنگ کرنے میں لمحہ نہیں لگاتے ۔ڈراموں میں اگر کہیں کوئی عورت اپنی "پسند" کی شادی نہیں کر پاتی تو ہم سے یہ غم برداشت نہیں ہوتا ۔اور کئی دن اسی افسوس میں گزر جاتے ہیں ۔لیکن اگر ہماری اولاد ایسی غلطی کر لے تو اسے "کافر " ہونے کی حد تک گناہ گار بنا دیا جاتا ہے ۔ولیوں کی ،صحابہ کرامؓ کی کہانیوں میں نظر آنے والی محبت سے ہمیں لگتا ہے کہ محبت واقعتاً ایک آسمانی جذبہ ہے جو اگر کسی پر اترے تو اس سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں کہ اللّه نے اسے چن لیا ہے ۔لیکن اگر آپ کی اولادمیں سےکوئی کہہ دے کہ "محبت" جیسے مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں تو ہم اسے مریض محبت نہیں بلکے ایک دماغی مرض میں مبتلا انسان بنا کر سرے سے ہی اسکی بات کو نظر انداز کر دیں گے ۔یہ حقیقت ہے بے حد تلخ سہی لیکن ہے ۔
اگر کسی ناول میں ہم کسی مرد کو کسی طوائف کو سہارا دیتے دیکھیں تو اسے انسانیت کی اعلیٰ مثال قرار دیں گے لیکن اگر آپکا بیٹا ایسی کسی عورت کو سہارا دے دے تو یہ قابل قبول نہیں ہے ۔اگر کوئی کہے کہ ہم نے کائنات کو ایک نکتے پڑ ٹھہرتے دیکھتا ہے تو ہم اسکا مذاق بنا کر بہت خوش ہوں گے ۔ ولیوں کے قصے، کہانیوں میں ہم کئی نسلوں سے یہ پڑھتے آ رہے ہیں کہ انسان گناہوں کی دلدل میں آخری حد تک بھی دھنس جائے تب بھی اللّه کا کہا ایک کن اسے ولیوں کی مسند پر بٹھا دے گا ۔لیکن اگرہمارے اردگرد کسی کی توبہ قبول ہو جائے اور اس کی زندگی مثبت انداز میں تبدیل ہو جائے تو ہم اسے قبولیت کی سند دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ حضور ﷺ کی حدیثیں ،سنتیں صحابہؓ اور اولیاء کے واقعات کو بنیاد بنا کر ہر کوئی بڑے ذوق و شوق سے یہ بتاتا ہے کہ اپنی اولاد کی جائز مرضی کے بغیر ان کے لئے فیصلے نا کرو ۔ انکی مرضی کو مقدم جانو ۔لیکن اگر اپنی اولاد آ کر کہے کے وہ اپنی پسند کا کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے آخری حد تک ملامت کیا جاتا ہے۔
ہمارے پاس اتنی لفاظی ہے کہ ہم لوگوں کی نظروں میں فرشتے بھی بن سکتے ہیں اور ہمارے نظریے اور عمل اتنے کھوکھلے ہیں کہ گر ہم منہ چھپانا چاہیں تو ساری دنیا تنگ پڑ جائے۔ ہم صرف قصے ، کہانیوں ،داستانوں اور تاریخی واقعات کی حد تک فینٹسی کے شوقین ہیں اور جب کسی کی زندگی میں ہمیں ایک آئیڈیل بننے کا موقع دیا جائے تو ہم سب سےپہلے اس شخص کے منہ پر ایساتھپڑ جڑ دیتے ہیں کہ تمام عمر اس صدمے سے وہ نکل نہیں پاتا۔ہم تمام عمر اس بات کا رونا روتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں در حقیقت لوگ ہم ہی تو ہیں۔ اللّه نے تو کافروں سے بھی نفرت تو دور کی بات تلخی سے بات کرنے کوبھی منع فرمایا ہے لیکن ہم نے تو کلمہ گو لوگوں کو ہی نہیں چھوڑا ۔ عجیب بے حسی میں لپٹی روایات اور عقیدے ہیں جو اور کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے بس لوگوں کو زندہ درگور کر دیتے ہیں اورچلتی پھرتی لاشوں کو عام کر دیتے ہیں۔