پانچ" میری آنکھ کے تارے مَحبت "چار" سے"

پانچ" میری آنکھ کے تارے مَحبت "چار" سے"

محمد طٰہٰ ابراہیم

ملتان

 

"پانچ" میری آنکھ کے تارے مَحبت "چار" سے

سِلسِلے ملتے ہیں میرے اِک مُقدَّس غار سے

 

پَڑ گَیا ہے عکس اِس پر اِک سُنہرے شخص کا

روشنی یوں ہی نہیں پُھوٹی مِری دِیوار سے

 

چِھین لی اُجرت کہانی کار نے کل رات پھر

لڑ پَڑا تھا خواب میں، مَیں مرکزی کِردار سے

 

مُجھ پہ طاری ہے تَھکن بوڑھے کِواڑوں کی طرح

چِرچِراتے ہیں جو دن بھر دَستکوں کی دھار سے

 

آخری پرچہ ہے اور وہ، رو رہی ہے زار زار

کُونج کو معلوم ہے بچھڑے گی اب وہ ڈار سے!