آگہی سفرِ دوراں
آمنہ تحریم
ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
"انسان چھپی ہوئی حقیقتوں سے لا علم ہی رہے تو اچھا ہے۔آگہی انسان کو بہت مشکل میں ڈال دیتی ہے۔لا علمی شاید اسی لئے نعمت ہے " رات کے آخری پہر چھت پر بیٹھی وہ دونوں اس نئے موضوع پر محو گفتگو تھیں۔ مہیب سناٹے میں جانوروں کی آوازیں اور ہوا کا شور عجیب ہیبت بکھیر رہا تھا ۔"تجسس ہمیشہ جلدبازی کی طرف لے کے جاتا ہے ۔اس لئے تجسس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ہماری زندگی جستجو کے ارد گرد گھومتی ہے اور اسی دائرے میں رہنی چاہئے۔ زندگی میں آگہی کا وہ ایک لمحہ بہت ضروری ہوتا ہے جب ہم اپنا احتساب خود کرتے ہیں۔ سیدھی سیدھی زندگی کبھی بھی اللہ تک نہیں پہنچتی۔ کہیں نا کہیں کوئی ایسا موڑ یا کوئی ایسی ٹھوکر ضرور آتی ہے جو ہمیں اللہ تک جانے کا راستہ دکھاتی ہے ۔ ہر شخص کی جستجو مختلف ہوتی ہے۔ ہر شخص کی آزمائش الگ ہوتی ہے۔"اس نے آسمان پر پورے آب و تاب سے چمکتے چاند سے نظریں چرا کر کہا ۔چاند سے آنے والے خوف پر وہ قابو نہیں رکھ پاتی تھی ۔چاند اس کے لیے خوفناک تھا ۔بے حد خوفناک ۔اور کیوں تھا ،اس سے وہ خود بھی لا علم تھی۔
"اندھیرے سے ڈرنے والے شخص کے لیے وہ اندھیرا جو رات اپنے ساتھ لاتی ہے اسکی ذات کا کمزور پہلو ہوتا ہے اور روشنی سے خوف رکھنے والےکے لئے وہ اجالا جو دن لاتا ہے ایک تاریک پہلو بن جاتا ہے ۔دونوں کی آزمائش مختلف ہے اور دونوں کا اس سےنبرد آزما ہونا بھی۔اس منظر کا حصہ بن کر اس میں survive کرنا اور خود کو ایک بہتر انسان کے طور پر ظاہر کرنا ان دونوں کی کوشش کا ایک اہم رخ ہے ۔اس لئے وہ کسی بھی صورت ایک دوسرے کے مقابل نہیں لائے جانے چاہیے۔روشنی سے خوف کھانے والے کے لئے اندھیرا ایک امید کا راستہ ہے ۔سکوں کا ذریعہ ہے ۔جبکے اندھیرے سے خوف زدہ ہونے والے کی کہانی اس کے بلکل برعکس ہو گی ۔"وہ خاموش ہوئی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولنا شروع کیا لہجہ بدستور نرم ہی تھا۔
"اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کرامؑ کو پیدا فرمایا اور انکی زندگی ہمارے سامنے پیش کر دی ۔صحابہ کرامؓ اور اولیااللہ ان تمام ہستیوں کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے" حاصل" اور" لا حاصل" کو صفر کرنا پڑے گا اور پھر ایک نیا سفر شروع کرنا پرے گا اور وہ بھی پہلے قدم سے ایک نو مولود بچے کی طرح جو ہر طرح کے علم سے لا علم ہوتا ہے ۔سب کھو کر پھر سے" حاصل" کرنا پڑتا ہے۔پھر زخموں سے بھرے وجود کے ساتھ اللہ کی طرف قدم بڑھانے پڑتے ہیں ۔اور پھر اللہ کو ہی اپنا کل سرمایا بنا کر چلنا شروع کرنا پڑتا ہے۔جہاں اللہ کہہ دے" بس" وہاں ہر سوال ہر جواب اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ۔پھر جب بندہ اس نظریے سے چلنے لگتا ہے کہ اللہ نے یہ حکم دیا ہے تو سوال جواب کا جواز ختم ہو جاتا ہے تب اللہ بغیر کہے تمام سوالوں کے جواب اسکے سامنے ظاہر کر دیتا ہے۔ ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ جو مصلحت عقل قبول کر لے اس پر شکر کرو اور جو نا کر سکے اس کو اللہ کی مرضی سمجھ کر اس پر راضی رہو۔آگہی کے تسلسل کو توڑنے کا تجسس رکھیں گے تو وہ ہمیں ریزہ ریزہ کر جائے گی ۔قدرت کے فیصلوں میں دخل اندازی کی اجازت قدرت نہیں دیتی اور جب قدرت کی مخالفت کی جائے تو وہ اسکا ردِ عمل ضرور دیتی ہے "
وہ ٹھہری گہرا سانس لیا اور ساتھ بیٹھی اس چھوٹی بچی کو دیکھا جو بڑی توجہ سے اسکی بات سن رہی تھی ۔وہ بے ساختہ مسکرائی۔"اللہ کے بندے ،اللہ کے بندوں کو خود سے پہلے رکھتے ہیں۔ اپنی تکلیف کو پسِ پشت ڈال کر انکی تکلیف کم کرتے ہیں۔ اپنی خوشی کو ختم کر کے اللہ کے لوگوں کو خوش رکھتے ہیں ۔اللہ کی طرف چلنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ انکی طرف آنے والی ہر تکلیف اور خوشی خالصتاً اللہ کی طرف سے ہے چاہے اس اذیت کا سبب کوئی انسان ہو یا پھر کوئی دوسرا قدرتی پہلو ۔انکا دائرہِ سوچ ہر چیز کو اللہ سے منسلک کرتا ہے ۔ ہوا اس وقت چلی ہے تو یقیناً اللہ نے کسی وجہ سے چلائی ہے ۔اس وقت ہی کیوں پرندوں نے شور مچایا ۔اور پھر انہی پرندوں نے کیوں شور کیا ۔غرض ہر چیز ،چاہے وہ قابل غور لگے یا نالگے ۔۔۔ وہ قابل غور ہوتی ہے اور کائنات کے ہر عمل میں ہمارے لئے سبق اور اللہ کی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔جو لوگ انکی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں انکے لئے دنیا ثانوی شے بن جاتی ہے اور انکی ساری توجہ اللہ اور اسکے بندوں کی خدمت کی طرف مبذول ہو جاتی ہے ۔اللہ اور اسکے بندوں کے لئے سب سے اہم محبت ہونی چاہئے جو اللہ سے کی جائےاور اسکی رضا کے لئے اسکے بندوں سے۔ "اس نے دھیمے انداز میں کہا۔اس کی کہی ہر بات میں" محبت "کی ہمیشہ الگ جگہ ہوتی ہے"اہم "اور سب سے "اونچی" ۔!!
دل کی باتیں اب دل میں ہی پوشیدہ رہیں تو
آنکھ میں ٹھہری ہوئی نمی کو کون دیکھے گا
ابھی تو لہجے کے تسلسل پر بحث چھِڑی ہے
تلخ لفظوں کے زہر کو کون دیکھے گا
ابھی تو میسر کے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں
جو کھو گیا اسکا تماشا کون دیکھے گا