اے بندگان رب ! کیا توبہ کا وقت ابھی نہیں آیا ؟

اے بندگان رب ! کیا توبہ کا وقت ابھی نہیں آیا ؟

پروفیسرڈاکٹر غلام سرور چٹھہ

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

کائنات کا نظام تھم گیا ہے زمین،ہواؤں اور فضاؤں کی حرکت بند ہو گئی ہے ہر چیز ساقط وجامد ہے ریلوے ،بحری جہاز ،فضائی جہاز ،بس سب بند ہو گئے ہیں کاروبار زندگی خواہ چھوٹا ہو یا بڑا سب رک گیا ہے ہر قسم کی نقل و حرکت تقریباََ بند ہے ہر انسان کواپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیںکوئی کسی سے ملنے مصافحہ کرنے اور گلے لگنے کا تو سوال ہی نہیں ہے ہر انسان اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھتا ہے اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہ جاتا ہے اور اشارے سے سلام کرنا کافی سمجھتا ہے ۔ باپ اوربیٹا ،بھائی اور بھائی ،قریبی عزیز و آقارب ،ہمسائے اور جگری دوست ایک دوسرے سے اجنبی بن گئے ہیں مسجد یں ویران ہو گئی ہیں مدارس اجڑ گئے ہیں ،تعلیمی ادارے خالی ہو گئے ہیںخانقاہیں وحشت کا منظر پیش کر رہی ہیںمکہ اور حرمین شریف تقریباََ بند ہیںقیامت کا منظر نظر آتا ہے ’’بھائی بھائی سے دور بھاگے گا باپ بیٹے سے بھاگے گا بیوی خاوند سے بھاگے گی‘‘(القرآن) ہر بندہ ایک دوسرے سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں کہیں کرونا وائرس کی زد میں نہ آجاؤں ۔ عجیب قیامت کا سماں ہے’’یہ کرونا وائرس ‘‘کیا ہے ؟ شاید سائنسی دنیا کے لوگ اس کے بارے میں صحیح کچھ بتا سکیں مختلف آرائیںہیںسائنسی دنیا اسے واقعی ایک وائرس بتاتی ہے ایک دنیا اسے یہودی سازش بتاتی ہے اور ایک عام آدمی جو سنتا ہے اس پر اعتماد کر لیتا ہے بہرحال یہ حقیقت ہے کرونا وائرس جو کچھ بھی ہے اس نے پورے عالم بالخصوص ترقی یافتہ دنیا میں تباہی مچا کے رکھ دی ہے ۔ امریکہ ،جاپان،اٹلی،ڈنمارک، برطانیہ،جرمنی دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں لاکھوں اموات ہو چکی ہیں اور مزید کا خطرہ سر پر منڈارہا ہے امریکی صدر خود بتاتے ہیں ہم نے ایک لاکھ کفن مزید تیار کر والیے ہیں۔اور کئی لاکھ مزید اموات کا اندازہ لگا رہے ہیں اور اس وبا کے خاتمے کا سرا نظر نہیں آرہا۔ انسانی قوتیں اور صلاحیتں جواب دے گئی ہیںحتٰکہ برطانیوی وزیر اعظم موت و حیات کی کشمکش میں ہے ان سطور کے شائع ہونے تک شاید انجہانی ہو جائیں۔ کہاں گیا امریکہ کا ورڈ آرڈر جاپان اور سویڈن کی صنعتی ترقی ،بڑے بڑے تھنک ٹینک ان کی سوچیں اور مہارتیں کہاں گئیںسب انسانی صلاحیتں جواب دے گئی ہیں !!! اللہ اکبر کبیراوالحمدللہ کثیرا

اے میرے انسانی بھائیو،مسلمانو،عیسائیوں، یہودیو،زرتشتو،بدمت والو، ہندومت والو،بابا گرونانک کے یپرکارہ، سردارجی ،باقی مذاہب اور بے دین لوگو! سنو اور کان کھول کر سنو!’’کرونا وائرس ‘‘ نامی بیماری اور وبا اللہ رب العزت خالق کائینات ،مالک کائینات،مدبر کائینات اور حی و قیوم کی ناراضگی کا ایک مظہرہے اللہ رب العزت پوری انسانیت سے ناراض نظر آتا ہے تم کرونا وائرس سے تو بچاؤ کی تدبیر یں کر رہے ہو لیکن اپنے رب کو ،خالق کو، رازق کو، مالک کو، محسن کو منانے کی فکر کیوں نہیں کرتے حفاظتی تدبیریں کرویہ تحت الاسباب اختیار کرنا ٹھیک ہیں لیکن ان تدبیروں کو مؤثر بنانے والی ذات کو راضی کرنا ضروری ہے ۔ دین اسلام اور شریعت محمدی کی طرف رجوع کرو۔آج کا ورڈ آرڈر یہی ہے ’’آج کے روز میں نے اپنا دین مکمل کر دیا اور مین نے اپنی نعمتیںپوری کر دیں، اور میں نے آپ کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا‘‘القرآن

یعنی بنی نوع انسان کے لئے آج کا دین /نظام زندگی اسلام ہی ہے ۔ ’’اے لوگو ! یہ رسول تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں اب ان پر ایمان لے آؤ کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے اور اگر اب بھی تم نے کفر کی راہ اختیار کی تو خوب سمجھ لو کہ تمام آسمانوں زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور اللہ علم و حکمت دونوں کا مالک ہے ‘‘ النساء ۔

کوئی ایک صدی پہلے دنیا میں طاعون کا مرض پھیلایہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا اور 1933تک یہ مرض چلتا ہی گیادنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہ سکی جب اللہ نے روکا تو رکا ،’’حکم اللہ ہی کا چلتا ہے‘‘(القرآن)

اُس نے یہ حکم دیا کہ’’ اسی کی عبادت اور بندگی کی جائے یہی سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (القرآن)

اے بنی نو ع انسان آج بھی وقت ہے اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرو وہ ناراض ہے بلکل ناراض ہے بہت ناراض ہے اس کو راضی کرنے کی فکر کرو اس لئے کہ ہم نے اس کے حکموں کی بہت خلاف ورزی کی ہے انسانیت کے مقام سے دنیا گر گئی بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر ’’وہ تو حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر‘‘(القرآن)

ترقی یافتہ دنیا

2016میں جان ہاپئنز یونیورسٹی کی رپورٹ امریکہ میں ۶۴فیصد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرورہیں جو شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہوتا ہے غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ایسی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد ۷۴فیصد تک جا پہنچی ہے 2007کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی دفعہ ماں بننے والی ۲۲فیصد سفید فام ۹۴سیاہ فارم اور ۷۶فیصد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پر بھی اب سے کوئی برائی نہیں تصور کیا جاتا لیکن ایسی ماؤں کا تعلیمی مستقبل ، پڑھائی پر توجہ کا سارا منصوبہ ،خواب اور کیرئیر پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے باقی یورپ کا حال بھی کچھ مختلف نہیںہے ۔ حد یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہم جنس ایک دوسرے سے شادی کر سکتا ہے اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہے اگرکرونا وائرس کا کوئی واقعی وجود ہے تو ترقی یافتہ دنیا اس کا مرکز ہے ۔ کلمہ گو دنیا کے گئے گزرے دور میں بھی سب سے کم متاثر ہے۔

اس مسئلہ کا حل کیا ہو؟

بروکنگ یونیورسٹی کی تحقیق ،امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے اس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بچوں کو سکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے تقصانات سے آگا ہ کیا جائے تا کہ وہ کم از کم شادی تک جنسی تعلقات سے گریز کریں لیکن معلوم نہیں اس حل کے عمل نفاذ کا خواب کتنی دور ہے

نتیجہ : آبادی کا بحران اور معاشرتی انتشار

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ کہ کہ عورتوں اور جوڑوں کی اکثریت اب بچے پیدا کرنے سے گریز کر رہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں آ بادی کا بحران پیدا ہو رہا ہے ۔آبادی اس کمی کو صرف مغرب ہی نہیں جاپان جیسے بلند ترین شرح آمدنی والے صنعتی ملک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے دو سال قبل جاپان کی ٹوکیویونیورسٹی میں جاپانی قوم کی ناپید ہونے کی خبر دینے والے گھڑیال کی تنصیب کی گئی جو سیکنڈ کے حساب سے جاپانی آبادی میں کمی کی لمحہ بہ لمحہ نشاندہی کرتا ہے ۔ امریکہ ،مغربی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والوں کو ان پہلوؤں کو نظر میں رکھنا ہو گا ۔کیا یہ انسانوں کی دنیا ہے یا حیوانوں کی یا حیوانوں سے بھی بدتر

یہ تو ترقی یافتہ دنیا کا ہم نے حال جانااور صرف ایک پہلو جانا بے دین ترقی پذیز ملکوں کی حالت اس سے زیادہ کوئی مختلف نہیں ہے۔کوئی تو خدا کی ذات عالیہ کو سرے سے مانتا ہی نہیںکوئی مانتا ہے تو اور بہت سے رب ساتھ بنا رکھے ہیں اور جو ایک رب کو مانتے ہیں وہ بھی حقیقت میں اس کو خالق ، مالک ،رازق نہیں مانتے اپنی کامیابیوں اور ترقی میں اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو کار فرما سمجھتے ہیں جیسے کارون کہتا تھا میرا یہ مال و دولت اور خزانے میری صلاحیتوں کی وجہ سے ہیں۔ موجودہ وبا اور بیماری اور عالمی بحران میں مسلم دنیا کا جو کردار ہے اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مسلم دنیا کو اپنے خالق و مالک و رازق کی طرف خصوصی توجہ اور رجوع کی ضرورت ہے ورنہ (خدانہ کرے)گندم کے ساتھ گن بھی پس جائے گا ۔

مسلم دنیا اور بلخصوص اہل پاکستان کی حالت زار

سعودی عرب ، عالم اسلام کا دینی اور روحانی مرکز ہے نئے ولی عہد صاحب نے سعودی عرب کو دوسرا پورپ بنا کے رکھ دیا ہے نتیجہ سب کے سامنے ہے ہمارے حرمین شریفن تک تقریباََ بند ہو گئے جس ملک کو دنیا کی رہنمائی کرنی تھی وہ اغیار کے پروپگنڈہ کی زبردست لپیٹ میں آگیا ۔ پورا نظام رک گیا سعودی عرب کی معیشت میں بہت بڑا حصہ حج اور عمرہ کا ہے ۔ عمرہ کی سعادت سے اسلامی دنیا محروم ہے اور اس سال فریضہ حج کی ادائیگی بھی تا حال غیر یقینی ہے یہ اللہ رب العزت کی ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے ، القدس ، شام ،عراق، لبنان ،فلسطین، افغانستان اور لیباکے حالات سب کے سامنے ہیں۔

پاکستان ایک عظیم اسلامی ملک ہے اور واحد اسلامی ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس عظیم نعرے کے ساتھ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ لیکن قائداعظم اور شہید ملت کی شہادت کے ساتھ ہی قیادت اور سیاست بے دین لوگوں کے ہاتھو ں میں آگئی بے دین اور سرمایا دار لوگ نظام پر چھا گئے اسلام کی جگہ برادری ، علاقے زبان اور تہذیب نے لے لی قوم اس بنیاد سے کٹ گئی جس بنیاد پر یہ ملک بنا تھا نتیجہ کے طور پر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان)میں ذات، برادی، زبان، تہذیب کی وبا پھیل رہی ہے ۔

وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا ، اور کارواں کے دل سے احساس ضیاع جاتا رہا ۔ اقبالؒ

قوم کے اندر جہاں اور مختلف وباؤں نے جنم لیا کئی ’’کرونے وائرس‘‘نمودار ہوئے وہاں ایک ’’کرونا‘‘عورتوں کی آزادی اور مردوں کی برابری بھی پیدا ہو گیا ہے عورتوں نے مردوں کی برابری کانعرہ لگایا ، سڑکوں پر نکل آئیں اور اپنے بہت سے جائز اور ناجائز مطالبات منوائے اور نوبت آں جاںرسید پچھلے مارچ 2019میں ایک بہت بڑی تعدار نے مسلمان کہلاتے ہوئے یہ شرمناک نعرہ لگایا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘یعنی جنسی آزادی ۔ وہ کرونا جو یورپ اور امریکہ اور دوسری ترقی یافتہ دنیا میں پیدا ہوا تھا اسے ہم اپنے ہاں دعوت دے رہے ہیں حالاں مذکورہ ممالک اب اس وبا سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں ۔

اسباب وبائ

اللہ رب العزت کی کی ناراضگی جس کو ہم نے کرونا کا نام دیا ہے بہت سے اسباب (میری رائے میں) اس طرح ہیں۔

خالق کائینا ت کی طرف سے بے توجہی

’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے جس نے تجھے پیددا کیا تجھے نِک سُک سے درست کیا تجھے مناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر رکھ دیا ‘‘(الانفطار)

ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں(قٓ)

خالق کائینا ت کی طرف رجوع ہی نظریہ اسلامی کا محور ہے اور یہی اسلام کے نظام تربیت کا سرچشمہ اور منبع ہے اور اسی منبع سے تمام قوانین اور ضابطے اور وہ تمام ہدایتیں سامنے آتی ہیں جس کی اساس پر انسانی زندگی مستقیم مہناج پر استوار ہوتی ہے کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف تو انسانیت آج کے حالات میں سسک رہی ہے ہر بندہ پریشان ہے لیکن دوسری طرف عمومی صورت حال یہ ہے کہ لوگ منہ اور ناک پر ’’ماکس ‘‘تو چڑھائے ہوئے ہیں لیکن سارا دن فضول کاموں میں گزار دیتے ہیں نوجوان کھلے عام خوش گپیاں میں مصروف ہیں بڑے عمر کے لوگ ٹیلی ویژن پر اپنا زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور نوجوان نسل جو قوم کی کریم ہے وہ موبائیل ، واٹس ایپ ، انٹرنیٹ اور فیس بک پر اپنا قیمتی وقت لگا رہی ہے اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کوئی اگر حالات سے پریشان ہو کر مسجد اور مکتب اور مدرسے کا رخ کرتا ہے تو اس کو تالے لگے ہوتے ہیں حتٰکہ جمعہ کی نماز کے لیے لوگوں کو دیواریں پھلانگ کر مسجد میں جاتے دیکھا ہے اور پولیس ان کا پیچھا کر رہی ہو تی ہے اُن سے مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ان حالات کو بھی کمائی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔

رزق حلال کے کسب سے لا پرواہی

عام طور پر ہم مسلمان بھی رزق حلال کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتے ۔ عموماََ ایک دھن ہوتی ہے کہ مال آنا چاہیے خواہ کہیں سے ہی آئے اور جیسے آئے حالانکہ روق کی حیثیت انسان کے لیے یوں ہے جیسا گاڑی کے لیے پٹرول ، جیسا رزق ہو گا ویسا ہی خون بنے گا اور جیسا جسم میں خون دوڑے گا ویسے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور فاسد خون کی وجہ سے جسم کو لا علاج بیماریاں لاحق ہونگی ۔ اور’’ حرام کھانے پینے اور پہننے والے کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں‘‘ الحدیث

حق داروں کو حق نہ دینا

عام لوگ اس کا بھی خیال نہیں کرتے کہ کسی کا حق نہ کھایا جائے حالاں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ رب العز ت اپنا حق تو معاف کر دے گا لیکن کسی دوسرے بندے کا حق معاف نہیں کرے گا جب تک وہ بندہ معاف نہیں کرے گا اور دوسروں کے حق ادا کرتے کرے بندہ تہی دست ہو جائے گا ۔ ہمارے لوگ عام طور پر بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا پورا حق نہیں دیتے ان کے شرم و حیا سے ناجائز فائیدہ اٹھاتے ہیں اپنی دنیا بنانے کی فکر میں آخرت خراب کر رہے ہیں اور اپنے رب کو ناراض کر رہے ہیں ۔

سنت مطہرہ سے لاتعلقی

بہت سے کلمہ گوہ سنت مطہرہ سے لاتعلق رہتے ہیں اپنے نفس کی خواہشات اور برادری کے رسم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں اللہ رب العزت کا تو ارشاد مبارک ہے ’’رسول مقبول ﷺ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘(القرآن)

طاقتور ممالک کا کمزور ممالک پر ظلم و ذیادتی اور خدائے قہار کی طاقت کو بھول جانا

الغرض اللہ رب العزت کی ناراضگی کے بہت سے اسباب ہیں جس سے بچنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ کی رحمت متوجہ ہو۔

اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

فرائض ، واجبات کی ادائیگی پورے انہماک سے ہو۔ جیسے ہم اللہ رب العزت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں توبہ و استغفار کا اہتمام ، استغفراللہ الذی لا الہ الا ھوا الحی القیوم و اتو ب الیہ

حلال اور طیب روزی کا پورا اہتمام کیا جائے اس کے بغیر تو بہ اور دعائیں قبول نہیں ہوگی نہ نیک اعمال ۔

اپنی اولادوں کی تربیت و تعلیم پر پوری توجہ دی جائے تا کہ یہ ہماری دنیا اور آخرت کا سہارا بنیں۔

حلال و طیب مال کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانے کی کوشش کی جائے۔اور دنیا میں بھی خیر و برکت ہو۔

مردوں اور عوتوں کے دائرہ کار شریعت نے مقرر کر دیے ہیں ان کی سنجیدگی سے پابندی کرنی چاہیے ۔

ذرائع ابلاغ کی تطہیر ہونا چاہئے اور حکومت وقت کو اس پرکڑی نظر رکھنی چاہئے ۔

حکومتی اور بااختیار لوگوں کو اپنے فرائض ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے چاہیں’’ہر شخص سے ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔

اساتذہ کرام معماران ملت ہیں ان کو قوم کی تعمیر اخلاص اور ذمہ داری سے کرنا چاہیے۔

علمائے کرام رہبران ملت ہیں ان کو ملت کی رہنمائی پوری ذمہ داری اور خداخوفی سے کرنی چاہیے۔

حرمین شریفین ہمارے روحانی اور دینی مرکز ہیں اُن کو اپنا مقام پہنچانا چاہیے اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

غیر مسلم دنیا کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف اور اپنی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔

الغرض پوری کائینا ت کو اپنے خالق و مالک ، رازق کے حضور میں گڑگڑانا چاہیے وہ ناراض تو ہے بہت ناراض لیکن اگر کوئی صدق دل سے رجوع کرے معافی مانگے تو وہ مان بھی بہت جلدی جاتا ہے پیارے نبی ﷺ نے سچ فرمایا ’’میرا رب سگی ماں سے بڑھ کر سو گنا زیادہ مہربان ہے‘‘الحدیث