ہم تخیل میں تیری یاد کو جب ضم کرتے
محمد حسن سراج
بی ایس کیمسٹری
ہم تخیل میں تیری یاد کو جب ضم کرتے
اشک بہتے ہوئے عارض کو میرے نم کرتے
اب تو دکھلادے خدا مجھ کو رُخِ جانانہ
ہو چکے ہاتھ بھی شَل یہ دعا پیہم کرتے
سِپاہِ ظلم ہو نابود خداوند کریم
کہ مر نہ جائیں کہیں آنکھ کو قُلزَم کرتے
میرے پہلو میں وہ اک باغ میں بیٹھا ہوا ہو
اور اس نظارے پہ ہم اک نظم رقم کرتے
خزاں کے ظلم پہ کیوں نالہ کرے لالہ و گل
خدا کیا دیکھ نہ رہا اسے ستم کرتے
فداکِ جاں کے مدعی تو سبھی عاشق ہیں
کبھی ملتا مجھے موقع بخدا ہم کرتے
عشق کرنا کوئی کمال نہیں ہے یارو
کمال ہوتا اگر عشق دم بدم کرتے
کاش اس طرح بسر ہو یہ زندگانی حسن
رضائے ربی میں ہی سر کو اپنے خم کرتے