"شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات"

"شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات"

محمد انور فاروق

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

میں نے زندگی میں بہت ساری کہانیاں پڑھیں اور کئی کئی دن ان کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ گزارے۔ یہ ایک خیالی دنیا ہوتی ہے جس میں آپ جو سوچتے ہیں وہ ہو جاتا ہے جس کردار سے ملنا چاہتے ہیں ملاقات ہو جاتی ہے مگر جب اس خیالی دنیا سے باہر آتے ہیں تو زندگی کی تلخ حقیقتیں کھڑی منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت ان کی کڑواہٹ اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جب آپ اپنی خیالی دنیا کو فتح کر کے آئے ہوں۔ ان دونوں دنیاؤں میں بہت فرق ہے اگر سادہ سی بات کروں تو خیالی دنیا میں کوئی المیہ نہیں ہوتا جبکہ حقیقی زندگی میں ہمیں قدم قدم پر المناک داستانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے انسان نے بھی ایک خیالی دنیا تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی ایسی دنیا جس میں ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر کچھ بھی کرنے کے دعوے ہوئے۔ اسی ٹیکنالوجی نے ہر انسان کی زندگی کو بدل دیا دنیا بہت زیادہ تیز رفتار ہو گئی۔ کب دن ہوتا اور کب رات پتا ہی نہ چلتا۔ انسان ترقی کی منزلوں پر منزلیں سبک رفتاری سے طے کرتا جا رہا تھا اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے والے صاحب علم تو یہاں تک کہنے لگے کہ اب اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ انسان وقت کو شکست دے دے گا انسان وقت پر غالب آ جائے گا۔ انسان اس دنیا میں جسے اس نے خود تخلیق کیا تھا ہیرو کے سنگھاسن پر براجمان ہو گیا اور یہ بات ہر عقل نے تسلیم کر لی۔

پھر ایک حادثہ ہوا۔ حادثہ بھی ایسا کہ جس کے اثرات رہتی دنیا تک محسوس ہوتے رہیں گیں۔ ایک حادثہ جس نے انسان کی تخلیق کی ہوئی دنیا کو ملیا میٹ کر دیا جس نے انسان کے بنائے ہوئے نظام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ جس نے انسان کا ٹیکنالوجی پر یقین متزلزل کر دیا۔ جس نے انسان کو ہیروازم کے سنگھاسن سے گھسیٹ کر نیچے پھینک دیا۔ انسان بے بس ہو گیا۔ اور انسان کے بے شمار دکھوں میں ایک دکھ کا اضافہ اور ہو گیا کہ وہ دنیا جو اس کی تخلیق تھی جو اس کی ہزاروں سال کی محنت تھی ایک لمحے میں ہیچ ہو گئی۔ اور جب ایسا ہوا تو یہ حادثہ محض حادثہ نہ رہا بلکہ ایک المیہ بن گیا۔ المیہ۔ جی ہاں اس دنیا کا ہیرو بے بس ہے۔ اور بے بس بھی کب ہوا جب وہ وقت کو شکست دینے کا دعویٰ کر چکا تھا۔ اب وقت کی خاک میں پڑا ہے اپنے ماضی کی کرچیاں سمیٹ رہا ہے اور اس حالت میں ہےکہ جیسے کوئی بینائی سے محروم دیواروں کو ٹٹول کر راستہ تلاش کرے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ جواب بڑا سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی ایسی دنیا جس کی بنیاد ناہمواری پر تھی جو کسی کے لئے تو جنت تھی اور کسی کے لئے دوزخ۔ ایسی دنیا کو نیچر نے مسترد کر دیا کیونکہ نیچر چاہتی ہے کہ ایسی دنیا تخلیق ہو جو سب کے لئے یکساں قابل قبول ہو۔ جب سب ختم ہوتا ہے تو وہ ہی لمحہ ایک نئے سفر کے آغاز کا ہوتا ہے۔ آغاز آخر کو کسی انجام سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ تو آئیے شکست تسلیم کریں اپنے حصے کی غلطیوں پر پشیمان ہوں اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی طرف قدم بڑھائیں جو سب کے لئے جنت ہو۔ مگر یاد رکھیے گا کہ خطاؤں کی معافی کے بعد عہد شکنی کی معافی شاید نہ ملے۔

اللہ پاک دنیا کے تمام انسانوں پر اپنا کرم فرمائے۔