اخلاق حسنہ کا درجہ

اخلاق حسنہ کا درجہ

ماجد رشید

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

اخلاقِ حسنہ سے مسلمان کو بلند رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ایمان و عقائد کی درستگی اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے بعد جب تک مسلمان اخلاقِ حسنہ کا پیکر نہیں بن جاتا اس کے درجات میں بلندی نہیں ہوتی۔ اللہ کریم جل جلالہٗ اُس بندۂ مومن کے درجوں کو بلند فرماتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہوتا ہے۔ اخلاق حسنہ ہی وہ ہتھیار ہے جس سے پتھر دلوں کو موم کیا جا سکتا ہے ، دشمن کو دوست کیا جا سکتا ہے  ۔قیامت کے دن اپنے  ترازو کو وزنی کیا جا سکتا ہے  ۔ عابدوں ، زاہدوں اور صائمین کے مقام تک پہنچا جا سکتا ہے  ۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے، وہیں معاملات کو بخوبی انجام دینے پر زور دیا، اچھی صفات سے متصف ہونے کی تاکید کی ہے اور بدخلقی کی مذمت کی ہے اس کے بھیانک اور مہلک نتائج سے خبردار کیا ہے اور بدخلق شخص سے اپنی بیزاری اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس موضوع پر  چند احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں جن سے اخلاق حسنہ کی عظمت اور شان کھل کر واضح ہو جائے گی ۔

 عَنْ عَائِشَةَ رَحِمَهَا اللَّهُ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِم۔ (ابو داؤد، رقم ٤٧٩٨)

’’عائشہ ؓ  سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ مومن حسن اخلاق سے وہی درجہ حاصل کر لیتا ہے جو دن کے روزوں اور رات کی نمازوں سے حاصل ہوتا ہے ۔‘‘

 عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ شَیْء ٍ يُوضَعُ فِی الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ۔ (ترمذی، رقم٢٠٠٣)

’’ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔‘‘

حضرت عائشہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابغض الرجال الی اللہ الالد الخصم۔  (ترمذی٢٩٧٦)

اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا اور جھگڑالو ہو۔

حضرت ابوہریرہ ؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کے آپ ﷺ نے فرمایا:

المؤمن غیرکریم والفاجر خب لئیم۔(ترمذی ١٩٦٤ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر چالاک اور کمینہ ہوتا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ لیبغض الفاحش البذیء  (ترمذی ٢٠٠٢ صحیحہ الالبانی)

اللہ تعالیٰ بےحیا اور فحش گو شخص سے نفرت کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ۔

البذاء من الجفاء والضفاء فی النار۔ (ترمذی ٢٠٠٩صحیحہ البانی)

فحش گوئی (اللہ سے) بدعہدی ہے اور بدعہدی جہنم میں (لےجانے والی) ہے ۔

بدخوئی اسلام وایمان کے منافی ہے۔

ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : ۔

إِنَّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنْ الْإِسْلَامِ وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا.( مسند احمد5/89، الطبراني الكبير: 2072 بروايت جابر بن سمرة .)

فحش خوئی وفحش گوئی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اور سب سے عمدہ اسلام اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے عمدہ ہو۔

بدخو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دور ہوگا۔( مسند احمد4/193، ابن حبان:482، الطبراني22/588.بروايت ابو ثعلبة.)

ایک حدیث مبارکہ میں حسن اخلاق کی عظمت کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے گناہ کی بھی پہچان بیان کر دی۔

اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ ( صحیح مسلم)

نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔

لَا تَحْتَقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ ( صحیح مسلم)

کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔

دو خصلتوں والے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب قرار دیا گیا ہے۔

 اِنَّ فِیْکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّھُمَا اللّٰہُ: اَلْحِلْمُ وَالْاَنَاۃُ ( صحیح مسلم)

تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے: بردباری اور وقار و سنجیدگی۔

مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقُ یُحْرَمِ الْخَیْرُ کُلُّہٗ ( صحیح مسلم)

جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے۔

ان احادیث مبارکہ اور اس طرح کی کثیر احادیث مبارکہ سے اخلاق حسنہ کی عظمت و شان مرشح ہوتی ہے ، اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں کو اخلاق حسنہ سے مزین کریں  اور اپنے اس تعلیمی سفر کو اخلاق حسنہ کے چراغ سے روشن رکھیں تاکہ ہمارا علم ، علم نافع بن جائے اور ہماری نجات و فلاح ہمارا معاون بن کر ابھرئے۔