حضرت بشر حافی ایک عظیم ولی

حضرت بشر حافی ایک عظیم ولی

ابوحمزہ محمد عمران مدنی

 

حضرت بشر حافی:ان کا مکمل نام بشر بن حارث بن عبد الرحمن بن عطاء بن هلال بن ماهان بن عبد الله،آپ کی کنیت ابو نصرتھی،اور نسبت مروزی،آپ کی ولادت ۱۵۲ھ۔ میں ہوئی تھی۔اکابر اولیا میں سے تھے ،آپ اپنے زمانے میں عقل و دانش ، عبادت و ریاضت، دینی استقامت،نفس کشی ، فضول  باتوں سے دور رہنے کے معاملے میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فائق تھے۔آپ نے کئی احادیث کا سماع کیا لیکن آپ خود احادیث بیان کرنے سے شدّتِ احتیاط کی بنا پر احتراز کیا کرتے تھے،ٓپ کی توبہ کا سبب یہ بنا کہ رستے میں انہیں ایک کاغذ پڑا ملا جسے لوگ لا علمی میں پاؤں تلے روند رہے تھے اس میں اللہ کا نام لکھا ہوا تھا ،آپ نے اسے اٹھایا ،عطر خریدا ، اسے معطر کرکے ادب کی جگہ پر رکھ دیا ،آپ نے خواب میں سنا کہ کوئی کہہ رہا تھا ،تم نے ہمارے نام کو معطر کیا ہے ہم دنیا و آخرت میں تمہارا نام معطر کردیں گے۔

آپ  ننگے پاؤں چلا کرتے تھے ، اسی وجہ سے آپ کو حافی کہا جاتا ہے،اس کی وجہ  خود آپ نے بیان فرمائی جسے امام یافعی نے روض الریاحین ''میں ذکر کیا کہ وہ امیر کبیر تھے ، رئیسانہ عیش وعشرت میں بسر کرتے ایک دن اپنی مجلس نشاط میں تھے کہ دروازے پر کسی فقیر نے آوازی دی کنیز گئی،     فقیر نے پوچھا: تیرا آقا کیا کرتا ہے؟     اس نے بیان کیا،     کہا: تیرا آقا بندہ ہے یا آزاد؟     کہا: آزاد،     کہا: سچ کہتی ہے، بندہ ہوتا تو بندگی میں ہوتا،    یہ آواز حضرت بشر کے گوش مبارک میں پڑی فورا ًحال متغیر ہوا، بیتابانہ ننگے پاؤں دوڑے، فقیر کو نہ پایا، دنیا چھوڑی، محبت مولیٰ کے رنگ میں رنگے گئے مگر اس دن سے جوتا نہ پہنا، اگر کوئی پوچھتا فرماتے:میرے مولیٰ نے مجھ سے اسی حالت پر صلح کی، یعنی جس وقت جذبِ الٰہی نے مجھے اپنی طرف کھینچا میں اس وقت ننگے پاؤں ہی تھا، لہٰذا اسی حال پررہنا چاہتا ہوں    آپ کی کرامت تھی جب تک زندہ رہے تمام جانوروں نے راستوں میں لِید، گوبر، پیشاب کرنا چھوڑ دیا کہ حافی کے پاؤں خراب نہ ہوں۔ ایک دن کسی نے بازار میں لید پڑی دیکھی کہا:اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پوچھا گیا:کیا ہے؟ کہا:حافی نے انتقال کیا، تحقیق کے بعد یہی امر نکلا۔(روض الریاحین،ص:۲۱۷۔۲۱۸)

حضرت بشر حافی نے فرمایا : میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :اے بشر!تم جانتے ہو کہ تمہارے ساتھیوں کے درمیان میں سے اللہ تعالی نے تمہیں بلند رتبہ کیوں عطا فرمایا ؟میں نے عرض کیا :جی نہیں ! یا رسول اللہ ﷺ!حضورﷺ نے فرمایا :اس لیے کہ تم میری سنتوں کی اتباع کرنے والے ہو ،صالحین کی خدمت کرنےوالے ہو،  میرے صحابہ و اہل بیت سے محبت کرنے والے ہو ،یہی وہ اعمال ہیں جس نے تمہیں ابرار (نیکوں)کے مرتبے تک پہنچا دیا ہے ۔حضرت بشر حافی نے ایک بار فرمایا :مجھے اپنے تمام اعمال میں سے سب سےزیادہ  بھروسہ اس عمل پر ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتا ہوں ۔آپ کا انتقال ربیع الاوّل ۲۲۷ھ میں بروزِ جمعہ  بغداد میں۷۵ سال کی عمر میں  ہوا۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۶۹۱۔بشر بن حارث،ج:۹،ص:۱۷۴)

حضرت ابو الفتح بن بشر فرماتے ہیں:میں نے خواب میں حضرت بِشْر حافی کو ایک باغ میں دیکھا،آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:اس نے رحم فرماتے ہوئے مجھے بخش دیااور تخت پر بٹھاکر فرمایا:اس دستر خوان پر موجود پھلوں میں سے جو چاہوکھاؤ اور لطف اٹھاؤکیونکہ تم دنیامیں اپنے نفس کوخواہشات سےروکتے تھے۔(صفۃ الصفوۃ، ذکر المصطفین من اھل بغداد، الرقم،۲۶۰،ج۲،ص۲۱۴مختصراً)

قاسم بن منبہ کہتے ہیں : میں نے حضرت بشرکو خواب میں دیکھ کر پوچھا :ما فعل اللّٰه بك؟ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا : تو انہوں نے بتایا : اللہ تعالی نے مجھے بخش دیا اور فرمایا :اےبشر! میں نے تیری اور تیرے جنازے میں شرکت کرنے والے سب لوگوں کی بخشش کر دی۔ میں نے عرض کی يا رب :تو مجھ سے محبت کرنے والوں کی بھی بخشش کر دے۔اللہ تعالی نے فرمایا : قیامت تک آنے والوں میں سے جو بھی تم سے محبت کرے گا میں اسے بھی بخش دوں گا۔