توبہ و استغفار  اور ربِ کریم

توبہ و استغفار  اور ربِ کریم

ماجد رشید

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

اللہ تعالیٰ نے ہمیں وجود بخش کر بہت ساری نعمتیں بطور امانت ودیعت کی ہیں ، سب مخلوقات میں سے بہترین سانچے میں بنایا ہے اور وہ ہی  ہمارا مالک ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی چاہت ہو تو وہ  اپنی نعمتوں  کو واپس لے سکتا ہے نیز نعمتوں کو واپس لینے اور نعمتوں کے محاسبہ پر اسے پوری پوری طاقت اور اختیار بھی حاصل ہے۔ اُسی ہستی نے ہمیں زندگی گزارنے کے لئے ایک نصب العین فراہم کیا ہے ، جس کو اپنا کر ہمیں زندگی گزارنی ہے۔

 انسان ہونے کے ناطے ہم سے بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی سرزد ہو جاتی ہے اور ہم ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جو اس کی چاہت اور منشاء کے منافی ہوتا ہے۔وہ چاہتا تو دنیاوی بادشاہوں اور مالکوں کی طرح فورًا سزا دے دیتا اور نعمت کو سلب کر لیتا ، لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ انسان کو بار بار موقع فراہم کرتا ہے کہ اپنی اصلاح کو بجا لائے اور حکم عدولی سے باز آ جائے تاکہ وہ سزا کا مستحق نہ ٹھہرے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ہم پر اتنی زیادہ شفقت اور مہربانی ہے اور ہم ہیں بھی کمزور و عاجز ،اللہ تعالیٰ کے غلام اور بندے ۔ اس لئے ہمیں تکبر اور روگردانی کرنے کی بجائے فورًا  رب کے در کی طرف رجوع کرنا چاہے اور اپنے جرم اور گناہ کا اقرار کر کے معافی کا طلب گار ہونا چاہیے ۔

پھر اس ہستی کی عظمت بھی ملاحظہ کیجیئے کہ وہ ہمیں جرم کا اقرار کرنے اور عاجزی کا اظہار کرنے کے بعد شرمندہ نہیں کرئے گا ، تاریخ گواہ ہے کہ وہ تو فرمائے گا ، اے موسیٰ! میرے بندے نے مجھ سے صلح کر لی ہے ، کبھی وہ محض  دل سے توبہ کرنے والے  کی برکت سے قحط کے زمانے میں (فرمانِ باری ہو جانے کے بعد بھی کہ اے موسی! میں بارش تب برساؤ گا جب  میرا نافرمان بندہ تیری مجلس سے اٹھ کر جائے گا ۔)وہ بارش برسا دیتا ہے ۔وہ ہستی جو سب سے زیادہ بندے کی توبہ کا انتظار کرتی ہے ۔ وہ ہستی جو قیامت کے دن فرمائے گی ‘‘ مبارک بادی ہو اس شخص کو جس کے نامہ اعمال میں توبہ کرنا زیادہ پایا گیا ’’ وہ  تو توبہ کرنے والے کے بارے میں فرماتا ہے ‘‘ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ’’ ۔ کبھی توبہ کرنے والے کو یوں تسلی دی جا رہی ہے کہ ساری انسانیت گناہ گار ہے لیکن سب سے بہتر گناہ گار وہ ہے جو توبہ کر لے ۔ وہ ہستی جو توبہ کرنے والوں کو اپنے محبوب کی زبانی یوں تسلیاں دے  ‘‘ اگر ایک دن میں میرے بندے سے ستر مرتبہ گناہ سرزد ہو جائے تو وہ میری دربار میں ایک مرتبہ آ کر دل سے  کہے ، اے اللہ! میری توبہ  تو میں رب اسے فورًا معاف فرما دوں گا ۔ اندازہ کیجئے اتنی غفور و رحیم ذات جب گناہ اور قتل کا بازارگرم کرنے والا فرد راہ ِراست پر آتا ہے اور دل سے گناہ پر نادم ہو کر رب کی دربار میں توبہ کے لئے رواں دواں ہوتا ہے  اور وسطِ راہ میں موت کا  وقت آن  پڑتا ہے  تو جہنم اور جنت کے فرشتے اسے لینے کے لئے آتے ہیں  اور زمین ناپنے پر معاملہ طے پاتا ہے تو ربِ کریم کی رحمتِ کریمی کو جوش آتا ہے اور زمین کو سکڑنے کا حکم ملتا ہے  اور وہ بندہ عاصی جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔

ان تمام باتوں کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم صرف ربِ کریم کی رحمت کو لے کر گناہ پر گناہ کرتے رہے اور اپنے رب کو بھلا دیں اور دنیا میں مست ہو جائیں اور یہیں خیال اپنے اعصاب پر سوار کر لیں کہ عنقریب ہم توبہ کر لیں گے اور ہمارے گناہ مٹ جائیں  گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے اور ہم سے محبت کرنے والا ہے ۔ کیونکہ مشاہدے میں بہت سارے ایسے واقعات آتے ہیں توبہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور اجل نام ہی مٹا دیتی ہے ۔

آخر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ توبہ کی حقیقت تین چیزیں ہوتیں ہیں جن پر ہم عمل کریں  تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ  فوراً توبہ قبول کر لے گا :

1۔ جو گناہ کر رہے ہیں اسے فورًا چھوڑ دیں۔

2۔ ندامت اور شرمندگی دل سے ہو ۔

3۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو۔

جب ہم ان باتوں پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور آئندہ گناہ سے بچنے میں بھی مدد فرمائے گا ۔ آخر میں تمام پڑھنے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ خُدا را گناہ سے اجتناب کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ  ہمارا مہربان ومالک ہم سے ناراض  ہو جائے ۔ اگر زندگی میں کبھی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے میں تاخیر نہ کریں بلکہ فورًا ربِ کریم کی طرف رجوع کریں اور گناہ سے توبہ کر لیں تاکہ وہ گناہ ہمارے نامہ اعمال میں باقی نہ رہے۔ کسی بھی گناہ کو حقیر اور چھوٹا نہ جانیں کہیں وہی گناہ ہماری ہلاکت کا موجب نہ بن جائے اور کسی بھی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر ترک نہ کریں کیونکہ وہی چھوٹی نیکی بھی رب کریم کی رضا کر موجب بن سکتی ہے ۔

 اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم فورًا اپنے گناہ  اور کمزوری کا اقرار کر لیں