میرا کشمیر
در ثمین
ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنسز
یہاں پر پھول کهلتے تھے۔میں نے دیکھاکہ شفق پر یہاں مسکراہٹوں کا جلوہ تھا۔منظر یوں بدل گیا کہ سب ختم ہو گیا۔۔۔اب میں دیکهتى ہوں کہ دشمن نے میرے کشمیر کو گهیرا ہے۔یہاں پر ظلم و بربریت ہے۔یہاں کى درسگاہوں کو قتل گاه بنایا جا رہا ہے۔ میرے کشمیر میں تو ٹھنڈے پانى کى نہریں بہتی تھیں اب خون کى نہریں بہتی ہیں۔میں دیکھتى ہوں کہ میرے سامنے ایک جنازه ہے ،اس جنازے سے لپٹى اس کى ماں،بہن اوربیوى ۔۔۔جو رورو کے پکار رہى ہیں !
یاخدا!یاخدا!یہ جنازه کون اٹهاے گا؟
کون اٹھاے گا؟
مگر ظلم تو پهر ظلم ہے۔بڑهتا ہے تو مٹ جاتاہے۔۔۔
ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم هوتا هے کہ 1947ء سے لے کر اب تک 5 لاکھ سے زیادہ کشمىرىوں کو شہىد کىا گىا۔کشمیریوں کے خون کے ساتھ ہولى کھیلی جا رہى ہے ۔مگر عالمی برادرى خاموش تماشائی کا شرمناک کردار ادا کر رہى ہے ۔وه کشمیر جسے اہل نظر جنت نظیرکہتے تھے ۔آج اس کى گلیوں اوربازاروں میں خون کے دریا بہتے ہیں۔مگر عالمی برادرى خاموش ہے۔کشمیر میں لاکهوں عورتوں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے اور وہ بیوہ کی زندگى گزار رہی ہیں ۔ہزاروں نوجوان اپاہج بنا دیئے گئے ۔لاکھوں بچے یتیم اور بے سہارا ہو گئے۔
مسلم نوجوانوں کو مارا جا رہا ہے اور نوجوان مسلم لڑکیوں کو اغوا کیا جا رہا ہے ۔لیکن دنیا میں کسى کو کچھ دیکھائی نہیں دے رہا ۔ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ کشمیر کے لہو کے چھینٹے اقوام متحده تک جاتے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس لہو کی قدر کرنے والا کوئی نہیں۔ کشمیر کی جلتى وادیوں میں وقت کے فرعونوں کی نظر میں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔اب توظالم غاصب کشمىریوں سے ان کى جائیدادیں چھین کر ان کو معاشی طور پربرباد کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔وه وقت آگیا ہے جب ہمیں آواز اٹھانى ہوگى کیونکہ سب جانتے هىں کہ اب آسمان جلتى زمین پر نہیں آنے والا ۔۔۔ جانےکیوں دبا رہی ہے دنیا کشمیر کی آواز۔۔۔ کون ہے اس دنیا میں جو ان دکھی اور لہو لہو لوگوں کی داد رسی کرے؟