مصحفی ہم تو سمجھتے تھے ہو گا کوئی زخم ۔۔۔ تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
عارف علی
ریذیڈنٹ آڈیٹر
ہر دور کا ایک المیہ ہے اور میرا دور المیوں کی آماجگاہ۔۔ المیوں کی طویل داستان ہے جسے سنانے کے لیے کسی نوحہ گر کی تلاش ہے۔ ان گنت المییے ہیں جو بے شمارسانحات کے موجب ہیں ۔اتنی بے حسی ہے کہ بے حسی بھی منہ چھپاتے پھرتی ہے۔ قابیل ہی قابیل ہیں جو روز ہابیل کو ڈھونڈتے ہیں اور بے گوروکفن پھینک دیتے ہیں ۔ستم تو یہ ہے کہ وقت کے قابیل کسی کوے سے سیکھنے کو بھی تیار نہیں ۔ وہ ایسی عقلی برتری کے خمار میں ہیں جو دوسروں کو جینے کیساتھ عزت سے دفنانے کا حق بھی نہیں دیتی۔ ہر دور کا ایک سچ ہوتا ہے اور اس دور کاسچ یہ ہے کہ یہاں جھوٹ ہی سچ بن چکا ہے ۔ کاروبار گلشن میں رونق اسی کے سبب ہے ۔ اور ستم تو یہ ہے کہ عدل کے ترازو میں جھوٹ ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو اس پہ قائم بھی رہوظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے
المیہ تو یہ بھی ہےکہ اب دولت کو رزق سمجھ لیا گیا ہے ۔ دولت اس دور کا ہبل منات اور عزی ہے جس کی لاشعوری پوجا ہر ایک پہ فرض ہے ۔ اسکا حصول اشرافیہ میں شامل ہونے کے لئے ضروری ٹھہرا دیا گیا اور عزت کا اعلی معیار بھی دولت کو قرار دیا گیا۔۔ بھوک کا خوف سب رشتے کھا گیا ہے ۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ آدمی ہی آدمی ہیں۔ مگر انسان خال خال۔۔ ایسا قحط الرجال ہے کہ انسانیت کا چراغ لیکر انسانوں کی دنیا میں اب انسان ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔۔ وہ انسان جو خاک کے پتلے ہوں جو شہر زلیخا سے دامن بچا کر نکل جانے کا ہنر جانتے ہوں۔
مت سہل جانوں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
المیہ تو یہ بھی کہ میرے دور کا انسان کائنات کی آفاقی زبان سے ناآشنا ہے ۔وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کی آفاقی زبان محبت ہے۔لیکن وہ اب نفرت کی زبان کا دلدادہ ہے ۔ اسے کون سمجھائے کہ آفاقی گناہ کی سزا بھی آفاقی ہوتی ہے ۔اورکفران محبت جیسے آفاقی گناہ کی سزا جہنم کی لافانی آگ ہے ۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ آج کے انسان کو خدا سے زیادہ غریبی سے ڈر لگتا ہے ۔۔ اسے خدا کے رازق ہونے سے زیادہ بھوک کا خوف ہے ۔ وہ بھول گیا ہے کہ جو رازق پتھر کے اندر کیڑے کو رزق دینے پہ قادر ہے وہ انسان کو کیسے بھول سکتا ہے ۔ زمینوں کا انتقال کراتے کراتے وہ خود انتقال کر جاتا ہے مگر ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والے رازق کے وعدے پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
المیہ تو یہ بھی کہ ہم سے منزلوں کیساتھ راستے بھی کھو گے ہیں ۔۔ ترقی کے نام پہ ہم پتھروں کے شہر تعمیر کر رہے ہیں ۔ستم تو یہ ہے کہ پتھر سے پتھر کو رگڑ کر آگ جلانے والا انسان اب اپنی اصلیت بھول کر پتھر کا ہو گیا ہے۔ وہ پتھروں کا شوقین ہے ۔ ظلم تو یہ ہے وہ مٹی کی خوشبو بھول چکا ہے ۔اسکے پتھر دل کیطرح اسکے آنگن کے چپے چپے پہ پتھر سجے ہیں ۔سڑکیں اسکے کھیت نگل گئی ہیں اورپتھروں سے مزین پلازے اسکے احساسات۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہمسفر ہم خیال نہیں ہیں ۔ہم سفر ہم خیال نہ ہو تو زندگی عذاب بن جانے اور جدائی کو تقدیر ہو جانے سے کون روک سکتا ہے ۔جب جدائی مقدر ہو جائے تو آنکھوں کے در پہ آنسو خودبخود دربان ہو جاتے ہیں۔یوں ہجر بینائی کو کھا جاتا ہے ۔صبح صادق کی کرنیں بھی سفید آنکھوں میں روشنی لانے سے قاصر رہتی ہیں۔ اب آدھے راستے کے مسافروں کو کون سمجھائے کہ راستے کی اذیت بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ چہرے پہ اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہے اور انسان عین جوانی میں صدیوں پرانا ہو جاتا ہے۔
المیہ تو یہ بھی کہ آج کا انسان فطرت سے دور ہو گیا ہے ۔ اسے منڈیر پہ رکھے دیے سے زیادہ برقی قمقمے اچھے لگتے ہیں ۔ اسے چندھیا دینے والی روشنی اچھی لگتی ہے ۔ اسے پھول کی خوشبو کی بجائے پرفیوم کی خوشبو پسند ہے ۔ اسے شجر کے ٹھنڈی چھاوں کے بجائے لکڑی کا بیوپار نفع بخش لگتا ہے ۔ اسے کون سمجھائے کہ اسکی بے لگام دولت کی خواہش نے پرندوں کو بے گھر کر دیا ہے ۔ان سے انکے ماں باپ چھین لیے ہیں۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ گھر کی خواہش نے سب کو بے گھر کر دیا ہے۔ سبھی پردیس کاٹ رہے ہیں ۔اس امید کیساتھ کہ دیس میں ایک اچھا گھر ہو گا۔ وہ بھول گیا ہے کہ اینٹ اور پتھر سے بنے مکان , مکینوں کے بغیر ایک آسیب زدہ کھنڈر تو ہو سکتے ہیں لیکن گھر نہیں ۔ جگمگاتے فانوس مکان کو روشن تو کر سکتے ہیں مگر ان سے دل کے آنگن میں چراغاں ممکن نہیں ۔ انہیں کون سمجھائے جو دل مال کی محبت میں سیاہ ہو جائے اسے روشن کرنے کیلیے توبہ کا غسل دینا فرض ہو جاتا ہے اور وہ بھی رب کے خوف سے چھلکتی آنکھوں کے پانی سے ۔سنو جو پانی اس کائنات کی تخلیق کا موجب تھا کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کی تطہیر کا ضامن نہ ہو گا۔