کرونا اور تعلیم کا بین الاقوامی منظرنامہ
اسماعیل سومرو
ایم فل ایجوکیشن
اور اللہ نے سکھا دیے آدم کو تمام کے نام ۔ البقرہ ۳۳
قرآن مجید کی یہ آیت تعلیم و تعلم اور علم کے حصول کی طرف انسان کو دعوت دیتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو وہ تمام علوم اور ان کے نام سکھائے آئے جن کی وسعت اور ماہیت ہمارے محدود علم کے بس کی بات ہی نہیں۔اب یہ سکھانے والا اور سیکھنے والا ہی جانتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان علم کا تبادلہ کس نوعیت کا ہے۔اگر ہم اپنے ناقص اور محدود علم کو پیمانہ بنا کر مریخ تک رسائی، زیر زمین چھپے خزانوں کی تلاش۔جوہری قوت کے تعمیری اور تخریبی عوامل۔اور دوسری تمام ایجادات اور بہت سے علوم جو ہماری ظاہری نظر سے پنہاں ہیں۔یقینا یہ سب حضرت آدم کو ودیعت شدہ علوم کا عشر عشیر بھی نہیں ہوں گے۔مگر انسان ہے کہ پھر بھی اس کا علمی غرور اور اور ذہنی تکبر دم نہیں لے رہا۔
دنیا میں جتنی بھی ترقی ہو رہی ہے یا ہوچکی ہے ہے سب براہ راست حصولِ علم سے وابستہ ہے۔اسی لئے اسلام میں حصول علم کو ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کے کسی موڑ پر یا کسی بھی شعبہ میں کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہے جس کی وضاحت اور رہنمائی دین متین نے نہ کی ہو۔
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔اس حدیث سے حصول علم کی اہمیت واضح اور روشن ہے۔دوسرے فرائض کی طرح حصول علم اور اس پر عمل کرنا بھی انسان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔خصوصا اسلام کے حوالے سے اگر کسی بات کی ہمیں آگاہی یا شعور نہیں تو اس تک رسائی اور اس کا حصول ہمیں ہر صورت ممکن بنانا ہے۔تاکہ بروز قیامت ہم اپنی لاعلمی اور عدم حصول علم کی وجہ سے پکڑے نہ جائے۔ جس طرح اسلام کے دوسرے فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے حدودوقیود مقرر ہیں۔نماز روزہ حج زکوۃ وغیرہ۔سبھی کے حوالے سے باقاعدہ احکامات موجود ہیں۔اگر آپ بیمار ہیں یا سفر میں ہیں۔آپ کی جسمانی یا ذہنی صحت متاثر ہے تو اس حوالے سے نرمی کیساتھ اور خصوصی احکامات موجود ہیں۔مگر جیسے ہی آپ صحت مند ہو جائیں گے تو آپ پر اسلام کی انہی حدود و قیود کی پابندی اور پاسداری لازم ہو جاتی ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر وبائی مرض کرونا نے دنیا کے ہر شعبے کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے۔وہ تمام امور اور ضابطے جو ہم عام دنوں میں بخوشی قبول کرتے تھے۔ان کا دائرہ کار اور انجام دہی یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔
چین کے شہر ووہان سے اٹھنے والی یہ وبائی مرض پہلے تو صرف چین تک محدود تھی۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک بین الاقوامی مرض کی صورت اختیار کر گئی۔جس نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کر کے انسان کو گھروں تک محدود کردیا ہے۔جہاں زندگی کے بہت سے شعبے کرونا کی وجہ سے متاثر ہوئے ہے ہے وہیں پر تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار براہراست حصول علم اور ان کے زرائع پر ہوتا ہے۔ یہ مرض لوگوں کے ہجوم میں ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کے دوران قدرے تیزی سے پھیلتا ہے۔درسگاہیں اور حصول علم کے دوسرے تمام مراکز جہاں پر طلباء اور اساتذہ اجتماع کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے بیماری کے پھیلنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے تعلیم کا بین الاقوامی منظرنامہ بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔سکول کالج یونیورسٹی تحقیقاتی ادارے سبھی اس کی زد میں آئے ہیں۔اگر ہم دنیا کی صف اول کی جامعات سکول کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں کے حوالے سے مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ترقی یافتہ ممالک خصوصا چین ،امریکہ، اٹلی سپین، چین ،جرمنیاور کینیڈااس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان ممالک نے اپنی جامعات اور اہم تعلیمی اداروں میں کرو نا کے پیش نظر خصوصی انتظامات اور ہدایات کا اجراء کیا ہے۔
امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹی "ہاورڈ" نےبین الاقوامی طلباء کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں اور ان کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے ۔اسی طرح امریکہ ہی کی " یونیورسٹی آف شکاگو " نے آن لائن کلاسز کا اجراء کر کے طلباء کو براہ راست ایک دوسرے سے ملنے کے عمل کو محدود کیا ہے. امریکہ ہی کی " یونیورسٹی آف کولمبیا " نےحصول معلومات کی خاطر آنے والے لوگوں کے لئے لیے پابندی عائد کرتے ہوئے خصوصی ہیلپ لائن کا اجرا کیا ہے تاکہ عملے اور عوام کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار معلومات پہنچائی جاسکیں۔ برطانیہ کی " آکسفورڈ یونیورسٹی " میں تقریبا تمام تعلیمی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کی گئی ہیں۔جن کی بحالی کے حوالے سے وزارت تعلیم کی طرف سے خصوصی ہدایات موصول ہونے کے بعد دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوں گی۔برطانیہ ہی "ایمپیریل کالج آف لندن "نے بزریعہ ڈاک کاغذات بھیجنے کے عمل کو روک کر سکین شدہ کاغذات بزریعہ انٹرنیٹ بھجوانے کو ضروری قرار دیا ہے۔ "یونیورسٹی آف ایڈن برگ " نے تمام تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرتے ہوئے یے ان کی تاریخ 15 جون تک بڑھا دی ہے۔ "یونیورسٹی آف کینیڈا "کی طرف سے غیر ضروری طور پر یونیورسٹی میں آنے والے لوگوں کو روکا گیا ہے۔کسی بھی قسم کی معلومات کے لئے صرف اور صرف دیے گئے فون نمبر اور ویب سائٹ سے رہنمائی لینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔یہ صورتحال صرف یورپ تک محدود نہیں بلکہ ایشیا کے بھی بہت سے ممالک نے کرونا سے بچاؤ کے لیے یے تعلیمی اداروں میں خصوصی انتظامات کیے ہیں۔"نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور" نے تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل کردی ہیں اور اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے جامع حکمت عملی تیار کرنے کے بعد آپ کو ہدایات جاری کر دی جائیگی۔ "یونیورسٹی آف ٹوکیو جاپان" کی طرف سے جاری شدہ ہدایات کے مطابق یونیورسٹی اور کالجز میں صرف آن لائن کلاسز ہوگی۔مگر لائبریری تک رسائی کے لیے خصوصی اقدامات اور ہدایت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ "یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ "نے بھی کرو نا کے پیش نظر آن لائن کلاسز کو ترجیح دی ہے۔اور حفاظتی انتظامات کے پیش نظر تمام تعلیمی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ گلف نیوز کے مطابق سعودی عرب نے کرونا کے پیش نظر جونیئر کلاسز کو ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر اگلے گریڈ میں پروموٹ کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح دبئی میں "سمارٹ ایویلیوایشن" کے نام سے ایک تعلیمی ایپلی کیشن کا آغاز کیا گیا ہے۔جس سے طلبہ کے پچھلے سمیسٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کو اگلے گریڈ ہمیں پروموٹ کیا جائے گا۔
تعلیمی صورتحال پوری دنیا میں انتہائی تشویش ناک ہے۔اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے کس حد تک تعلیم پر سمجھوتا کرتےہوئے طلباء اساتذہ اور عوام الناس کی جانوں کو بچا نے کیلئے ہنگامی اور غیر معمولی اقدامات کئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 290 ملین طلباء وطالبات کا تعلیمی نظام متاثر ہوا ہے۔یونیسکو نے 10 مارچ 2020 کو" گلوبل ویڈیو کانفرنس آف ایجوکیشن" کا انعقاد کیا۔جس کے ذریعے کرونا کے پیش نظر تعلیمی عمل کل!بہتر بنانے کے لئے خصوصی ہدایات اور تجاویز پر غور کیا گیا۔اس سے پاکستان میں بھی سکول کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر پر خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔جس میں طلباء کے امتحانات کی منسوخی کی سکولوں کی بندش اور اگلے درجے میں ترقی دینا شامل ہے۔حالات کی سنگینی اور حقائق کو جانے بغیر ر کچھ لوگ صرف تنقید سے کام لیتے ہوئے اس عمل کو غیر سنجیدہ لے رہے ہیں۔جب کہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک جو تعلیم اور اور معیشت میں ہم سے کہیں زیادہ مستحکم ہیں ۔
امریکہ یورپ اور ایشیا بیشتر جامعات کالج اور سکولوں نے نے انہیں اقدامات کو اپنایا ہے۔۔مگر قربان جائیں سوشل میڈیا پر بیٹھے ان نام نہاد علماء اور سکالرز پر جو پاکستان اور دنیا کے ہر مسئلے پر پر اپنا تجاویز دینے سے باز نہیں اتے۔بین الاقوامی منظرنامہ پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کے سکول کالجز اور جامعات میں جو اقدامات کئے جارہے ہیں۔وہ حکومت انتظامیہ یا تعلیمی اداروں کے سربراہان کے ذاتی فیصلے نہیں بلکہ عوام الناس اور انسانیت کی بقا اور فلاح کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔ اگر آپ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار اور جرائد کا مطالعہ کریں۔آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ دنیا کے عالمی منظرنامے پر تعلیم کے حوالے سے سے کتنے غیر معمولی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں ڈان، دی نیوز، دی ٹائمز آف انڈیا، واشنگٹن پوسٹ، اکانومسٹ، دی گارڈین جیسے اخباروں نے بھی اس حوالے سے خصوصی تحریریں اور شمارے جاری کیے ہیں۔
اسی سلسلے میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جام محمد ظفر صاحب ایک نشست ہوئی۔جس میں انہوں نے جامعہ ہذا کی طرف سے کرونا کے پیش نظر کیے گئے اقدامات کے حوالے سے بتایا۔یونیورسٹی انتظامیہ موجودہ حالات کے پیش نظر اساتذہ اور طلباء کی رہنمائی کے لئے یے دنیا کی بہترین جامعات سے آن لائن معاونت حاصل کی ہے۔جس سے طلباء کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرتے ہو ہے ان کے تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچایا جا رہا ہے۔ آخر میں رب ذوالجلال سے التجاء ہے کہ کرونا جیسی وبائی مرض سے جلد از جلد ہمیں نجات دے۔تاکہ شہروں سکولوں و کالجوں اور جامعات کی رونقیں پھرسے بحال ہوں حصول علم اور حصول رزق کے بہتر اور سہل مواقع سب کو میسر ائیں۔