۔۔۔ ابر صحرا KFUEIT
مریم عبدالخالق
بی ایس کیمسٹری
فرید صاحب کی دھرتی پر اک صحرا تھا ویران پڑا۔
تھی برسوں سے پیاسی زمیں اور بنجر تھا میدان بڑا۔
اک دن اچانک صحرا میں اک ابر کا ٹکڑا آ بھٹکا۔
علم کی بوندیں گرنے لگیں اور ننھا پودا پھوٹ پڑا۔
اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں ،شجر کا سایہ پھیل گیا۔
اور اس شجر کے سائے میں ہم سب کو اک مسکن ملا۔
جب اہل علم اور دانش ور اس مسکن کے سب باسی ہوئے۔
پھر علم کے دیے جل اٹھے ظلمتبی کا اندھیرا دود ہوا۔
محنت کی معماروں نے اور اس کو اس کو چلانے والوں نے۔
تو اپنی شان و شوکت سے ہر نظر کو خیرا کرنے لگا۔
اس مسکن کے ہر گوشے میں اب امیدیں جنم لیتی ہیں۔
اور یہ عظیم الشان قلعہ تعبیر خوابوں کی کرنے لگا۔
اس مسکن کے افراد سبھی یونہی شاد رہیں آباد رہیں۔
میری رب سے ہے یہی دعا آباد رہے مسکن میرا۔