حقیقی استاد
محمد انور فاروق
ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز
کسی بھی معاشرے کا علمی ، ادبی اور شعوری چہرہ استاد ہی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی معاشرے کے مستقبل کا تعین کرنا ہو تو آپ اس معاشرے کے نظام تعلیم اور اساتذہ کو دیکھ لیں۔ اس بات کا مطلب سادہ ہے کہ نظام تعلیم اور استاد مل کر ہی وہ ہنر مند اور با صلاحیت لوگ تیار کرتے ہیں جو کسی بھی ریاست کا نظام چلانے کے لئے ضروری ہوتےہیں۔ اگر استاداپنے کام پر توجہ دینا چھوڑ دے تو کبھی بھی قابل لوگ پیدا نہیں ہوں گے اور معاشرہ زوال پذیر ہو جائے گا۔ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔ ایسے ممالک میں اساتذہ پر ذمہ داری اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ استاد یا معلم ہونے سے کیا مراد ہے؟ بقول احمد جاوید صاحب استاد یا معلم وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے طالب علم کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ اسے اپنے باپ سے زیادہ محبت ہے یا استاد سے۔ مطلب استاد تعلیم بھی دیتا ہے اور ایک باپ کی طرح تربیت بھی کرتا ہے۔ استاد کی توجہ اور محنت کے بغیر کردار سازی بھی ممکن نہیں۔ جہاں استاد کا کام ایک ہنر مند ذہن پید کرناہے وہیں اس سے بھی ضروری کام یہ ہے کہ ایک ایسے ذہن کی تشکیل کی جائے جو ہنر مند ہونے کے ساتھ تہذیب اور روایت کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہو۔ ہنر مندی سے معاشرہ مادی اعتبار سے ترقی کرتا ہے جبکہ تہذیب اور روایت کے ساتھ جڑت نیا علم پیدا کرتی ہے ، ادب ترقی کرتا ہے اور اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ اقدار کے بغیر ہنر مندی یا ذہانت ایسے ہی ہے جیسے چاند تو موجود ہو مگر اس کو گہن لگا ہوا ہو۔ استاد کا کام طالب علم کی شخصی اور ذہنی تشکیل ان دونوں زاویوں پر کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب استاد اپنے مضمون میں مہارت رکھتا ہو اور تہذیب و روایت اس کی گفتگو اور شخصیت پر غالب ہو۔ ایسے استاد سے طالب علم غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ استاد کو اپنے سٹوڈنٹس کی ایسے ہی فکر ہونی چاہیے جیسے کہ ایک باپ کو اپنے بچوں کی۔استاد کے فرائض میں بچوں کو صرف کتابی علم دینا ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن، اٹھنے بیٹھنے سے لے کر ان کووہ علم دینا ہے کہ ان کی زندگی میں ایسا انقلاب آجائے جس کے بعد وہ زندگی کے اصلی و حقیقی مقصد کو سمجھ سکیں اور اپنی زندگی میں مثبت انداز میں آگے بڑھنےکی عملی جد و جہد کر سکیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر نذیر احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک درویش صفت پرنسپل تھے۔ ان دنوں گورنر پنجاب نواب امیر محمد خان نے ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر ان کا تبادلہ کروا دیا۔ جب گورنمنٹ کالج لاہور کے طلباء کو معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلے کے خلاف احتجاج کا منصوبہ بنایا ۔ ایک صبح تمام طالب علم اکھٹے ہو کر پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کے لئے پہنچ گئے۔ دوران احتجاج وہ جو نعرہ لگا رہے تھے وہ حیران کن تھا " ہمارا باپ واپس کرو"۔ جب ڈاکٹر نذیر احمد کو احتجاج کی اطلاع ملی تو وہ اپنی سائیکل پر وہاں پہنچے اور بڑی مشکل سے سمجھا کر تمام سٹوڈنٹس کو واپس کیمپس لے کر آئے۔ "ہمار باپ واپس کرو" یہ مطالبہ اتنا جاندار تھا کہ گورنر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور پرنسپل صاحب کا تبادلہ روک دیا گیا۔ یہ سٹوڈنٹس کی اپنے استاد کی ساتھ محبت اور استاد کی سٹوڈنٹس کے ساتھ شفقت کی ایک سبق آموز داستان ہے ۔
آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ معاشرہ بدل گیا اب استاد کو عزت نہیں ملتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی استاد کو ایک بادشاہ یا مرشد کی طرح عزت ملتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ استاد ہونے کی شرائط پر کوئی کوئی پورا اترتا ہے۔ تدریس ایک مشن ہے اور وہ ہی لوگ عزت کماتے ہیں جو اسے نوکری سمجھ کر نہیں بلکہ مشن سمجھ کر کرتے ہیں۔ الیگزینڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم کا بڑا مشہور مقولہ ہے کہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔اچھا استاد پڑھانے میں بھی بے مثل ہوتا ہے، وہ اپنے مضمون میں نہ صرف کمال پیدا کرتا ہے، بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم سے وہ اچھی طرح واقف رہتا ہے۔ وہ اچھے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور اس کے ساتھ پڑھانے میں اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔ماہرین تعلیم جانتے ہیں کہ پڑھانا بھی ایک فن ہے بلکہ ہر اچھا سبق آرٹ کا نمونہ ہوتا ہے۔ پڑھانا یہ نہیں کہ کوئی شخص ایک بالٹی پانی دوسری بالٹی میں انڈیل دے۔تعلیم کا سیدھا سا تعلق ذہن و دماغ اور روح سےہے۔ استاد کے ذہن کی رسائی طلبا کے ذہن تک ضروری ہے ، جو بظاہر بہت پیچیدہ کام ہے۔ جس کا بیان الفاظ میں آسان نہیں۔ یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب استاد کو اپنے کام سے عشق ہو ، اخلاص ہو، خون جگر دیا ہو۔اچھے استاد کی پہچان کسی صدر ادارہ یا ماہر تعلیم کے لئے بھی مشکل ہے۔ اس کی کسوٹی چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر یونیورسٹی سطح کے طلبہ ہی ہو سکتے ہیں۔ کسی چھوٹے بچے سے پوچھئے تمہارے ہاں کون سب سے اچھے استاد ہیں، وہ فوراً نام بتا دے گا۔ اب پوچھئے ان میں کیا خاص بات ہے؟ وہ کچھ سوچے گا، سر ہلائے گا، لیکن کچھ کہہ نہ سکے گا۔بچوں میں اپنے استاد کو جانچنے اور پرکھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے ، وہ استاد کی ذات میں وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ جو شاید استاد بھی اپنے متعلق نہ جانتا ہو۔ ان کے نزدیک جو اچھا ہے وہی اچھا استاد ہے، طلبہ اس کی عظمت سے واقف نہیں لیکن اس کی عزت و محبت ان کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔ اچھے استاد کے لئے دنیا کا کوئی انعام اس سے بڑا نہیں ، استاد کو یہ عزت و شہرت بس یونہی حاصل نہیں ہو جاتی وہ خاموش اپنے کام میں کوئی تہائی صدی تک مصروف رہتا ہے۔اس کا کام کوئی دو چار دن، دو چار مہینوں میں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے مزاج کو طوفانی ہواؤں سے کوئی نسبت نہیں، وہ ایک نسیم سحری ہے جو بہت خراماں خراماں چلتی رہتی ہے۔ نہ اس کا نام اخباروں میں آتا ہے اور نہ اسے کوئی پھولوں کے ہار پہناتا ہے۔ وہ ایک گمنام اور نیک نام شخصیت کا مینار ہے، اس کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد بے ہنگم پتھروں کو تراش کر وہ ہیروں میں تبدیل کرتا رہتا ہے۔اس کی ذات ہمدردی اور محبت کا جیتا جاگتا سرچشمہ ہوتی ہے۔ مشہور زمانہ ماہر تعلیم پستالوزی کے متعلق مشہور ہے کہ جب وہ کلاس روم میں داخل ہوتا تو چھوٹے بچوں کو پہلے سلام کرتا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو جواب دیا:"مجھے معلوم نہیں کہ ان بچوں میں کون بڑا فلسفی کون بڑا آدمی یا معلم انسانیت بیٹھا ہوا ہے میں شاید اس وقت ان کی تعظیم کے لئے زندہ نہ رہوں گا"۔ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں:"جب سب لوگ کسی بچہ کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر بھی دنیا میں دو آدمی ایسے ہیں جو اس بچہ سے مایوس نہیں ہوتے، ایک اس کی ماں اور دوسرا شفیق استاد"۔ ایک حقیقی استاد کلاس روم میں بادشاہ کی طرح ہوتا ہے ۔ ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے مضمون کے پر مہارت حاصل ہو، جس کا کلاس روم میں جانے سے پہلے لیکچر اور لرننگ میٹیریل تیار ہو،جس کی کمیونیکیشن سکل اچھی ہو،جو تحمل و برداشت رکھتا ہو، لیکچر کے دوران سٹوڈنٹس کو سوالات کو خوشدلی سے نپٹاتا ہو، زبان کا معیار بلند ہو اردو یا انگریزی شستہ ہو، سٹوڈنٹس کے ساتھ نرمی اور شفقت والا برتاو کرتا ہو، تدریس کے ساتھ سٹوڈنٹس کی اخلاقی تربیت کرتا ہو اور انہیں مناسب اور نا مناسب کا تصور باور کروانے کی کوشش کرتا ہو، جوطالب علم کے اندر موجود ٹیلنٹ کو پہچانے اور اس کے مطابق اسے گائیڈ کرے، جومطالعے کی عادت رکھتا ہو۔ استاد کی گفتگو کے ساتھ شخصیت بھی متاثر کن ہو اور استاد کے لئے ڈریس کوڈ پر عمل کر نا بھی ضروری ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایک شعر میں لیڈر کی خوبیاں کچھ یوں گنواتے ہیں کہ
نگہہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
حقیقی استاد وہ ہے جو اپنے سٹوڈنٹس میں لیڈرشپ کی یہ خصوصیات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جو اقبال نے بیان کی ہیں۔ میرے ایک استاد تھے جو کہا کرتے تھے کہ اگر میری کوشش سے کسی ایک طالب علم کی زندگی بن گئی تو میری آخرت میں بخشش ہو جائے گی۔ استاد کو ہمارے مذہب نے بہت زیادہ عزت و احترام سے نوازا ہے.جیسا کہ ایک حدیث شریف میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ”ایک اور جگہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے استاد کی عزت اور احترام کی اس طرح تاکید فرمائی ’’دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب بنتا ہے، دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی تمہاری زوجیت میں دی، تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان تینوں میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے ‘‘ جب اس قدر درجہ اور احترام ایک استاد کو ہمارا دین عطا کرتا ہے تو یقیناً ذمہ داری بھی کس قدر عظیم ہوگی۔امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔ تعلیم ایک ربانی عمل ہے۔ حق تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اسما کی تعلیم دی اور قلم کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ درس و تدریس بڑا مقدس مشغلہ ہے، کیوں کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا مشغلہ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ مدرس و معلم معمولی انسان نہیں، ان کو چاہیے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو حقیراور چند ہزار روپے کا ملازم و نوکر نہ سمجھیں۔ طلبہ استاد کی سیرت و شخصیت کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں، اس لیے ایک استاد کو انتہائی محتاط ہونا چاہیے۔ اسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، جن اچھے خصائل اور اقدار کو وہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتا ہے پہلے ان کو اپنے وجود میں پیدا کرے، بچوں میں اسی چیز کا انعکاس ہوگا جو استاد میں موجود ہوں گی. استاد کی شخصیت جن اوصاف کی آئینہ دار ہوگی وہ اوصاف از خود طلبہ کے دلوں کو متاثر کریں گے۔ شاگرد اپنے استاد کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے، یوں استاد کی چال ڈھال، عادات و اطوار اور اخلاق و کردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں۔ کسی شاگرد کی کامیابی میں اس کے استاد کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ہم جتنی بھی مشہور اور بڑی شخصیات کے حالات اٹھاکر دیکھیں، یہ بات سب میں مشترک نظر آئے گی، کہ ان کو بڑا آدمی بنانے میں ان کے استاتذہ کا کردار سب سے اہم اور کلیدی تھا۔ اس کا اعتراف بھی ہمیں ان کے اقوال و افعال میں نظر آئے گا۔ آخر کوئی تو بات تھی، کہ جب علامہ محمد اقبال کو حکومت کی جانب سے ''سر'' کاخطاب دیا جانے لگا، تو انھوں نے یہ خطاب قبول کرنے کی شرط لگائی، کہ یہی خطاب ان کے اولین استاد سید میر حسن کو بھی دیاجائے!
استاد کا کام طالب علموں کی زندگی میں امید کا دیا روشن کرنا بھی ہے۔ برٹنی ڈیرس کولوراڈو امریکہ میں رمپارٹ ہائی سکول میں انگلش کی استاد ہیں۔ جب برٹنی نے اپنی ایک طالبہ کی مسلسل غیر حاضری کی وجہ جاننے کے لئے اس کے گھر رابطہ کیا تو انہیں پتا چلا کہ اس طالبہ نے خود کشی کی کوشش کی ۔ پولیس کی بروقت مدد سے اسے بچا لیا گیا اور کئی دن سے وہ ہسپتال میں زیر علاج تھی۔ وہ مرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کے والدین نے تعلیمی میدان میں جو امیدیں اس سے وابستہ کر رکھیں تھیں انہیں پورا کرنا اس کے لئے خاصا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور یہ مسلسل ذہنی دباو وہ برداشت نہ کر پائی ۔ یہ بات برٹنی کو بہت زیادہ پریشان کر گئی اور اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ اس صورتحال میں وہ کیسے اس طالبہ کی مدد کر سکتی ہے۔ اس نے ایک خط لکھا اور ہسپتال میں داخل اس طالبہ کو بھجوا دیا۔ اس خط میں برٹنی نے اپنی طالبہ کی منفردصلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے اس کا اپنی ذات پر کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی اور اسے یہ باور کروایا کہ وہ مستقبل میں ایک منفرد مقام حا صل کر سکتی ہے۔ یہ خط اس کی زندگی میں امید کی ایک کرن ثابت ہوا۔ اور وہ نئے سرے سے اپنی زندگی جینے کے لئے تیار ہو گئی۔ اس تجربے نے برٹنی پر گہرا اثر چھوڑا اور اس نے اپنے طلباء کی حوصلہ افزائی کرنا اپنا معمول بنا لیا کیونکہ وہ جان چکی تھی انسانی سوچ کو مثبت رخ پر رکھنے میں حوصلہ افزائی نہ صرف بہت اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ زندگی میں امید کا دیا بھی جلا دیتی ہے اور یہ ہی امید زندگی کو کامیاب مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔ برٹنی نے سال میں ایک دفعہ ہر طالب علم کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہو ا ایک تعریفی سرٹیفکیٹ دینا شروع کر دیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹرینڈ اس قدر مقبول ہوا کہ کولوراڈو میں تما م ہائی سکولز کے اساتذہ بھی اسی طرح اپنے طلباء کی حوصلہ افزائی کرنے لگے جس کے طلباء پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ ایک سرکاری سروے کے مطابق اس اقدام سے کولوراڈو کے اسکول جانے والےبچوں میں خودکشی کے رجحان میں ایک ہی سال میں تین چوتھائی کمی واقع ہوئی ۔ اگر غور کیا جائے تو برٹنی کا عمل بہت سادہ سا ہے مگر اس کے نتائج بہت حیران کن ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک حقیقی استاد ہی قوم کو بناتا ہے اور قوم کے ذہن کی تشکیل کرتا ہے۔ استاد کی توجہ طالب علم کی زندگی بدل دیتی ہے۔ تدریسی عمل کو مشن سمجھ کر نبھانا اور تربیت کے ساتھ طلبہ کی زندگیوں میں امید کی روشنی سے مثبت تبدیلیاں لانا ہی استاد کی اصل ذمہ داری ہے۔