دکھی پھرتا ہے جہاں سارا
تنویر ملک
ڈیپارٹمنٹ آف مکینیکل انجیئنرنگ
بیوی نے شوہر کو الوداع کہا۔ جہاز نے اڑان بھری۔طرح طرح کے خیال آنے لگے حوصلے بلند تھے وہ بھی صرف اس لئے کہ نوکری مل گئی تھی۔ مگر وطن سے دور بہت دور۔ تنخواہ ڈالروں میں تھی۔ ڈالر کی اونچی اڑان تھی اس لئے اچھی تنخواہ کی خوشی تھی۔ وقت کا کام گزرنا ہوتا ہے سو وہ گزرتارہا۔ بیوی انتظار کرتی رہی۔ خاوند کا نہیں اس کے پیسوں کا۔ پیسے آگئے تو گھر کو سجایا گیا۔ فانوس لگائے گئے۔ روشنیاں جگمگا گئیں۔کھانے پکے۔ مہمان آئے تو انکی خاطرداری کی گئی۔ وہاں کمی تھی تو صرف گھر کے مالک کی۔ گھر کا مالک پردیس میں بیٹھ کر پیسے بھیج رہا تھا مگر خوشی میں شریک نہ تھا۔ دیار غیر میں خاوند اداس اور دیس میں بیوی اداس۔ دکھوں سے بچنے کیلئے پردیس گیا مگر پردیسی ہونے کا روگ لگا بیٹھا۔
کیا یہ زندگی صرف دکھوں کا نام ہے۔ کیا کوئی کائنات میں ایسی آنکھ ہوگی جس سے آنسو کا قطرہ نہ بہا ہو۔ آج کا انسان بہت دکھی ہے۔ ظاہر بے خراش بھی ہو تو باطن قاش قاش ہوتا ہے۔ حقیقت کے اصل روپ کی طرف آئیں تو ہمیں چند خواہشیں نظر آتی ہیں جنہوں نے انسان کو اداس کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر اک خواہش پوری ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری جنم لے لیتی ہے۔ کثرت آرزو نے اداس کر رکھا ہے۔ کثرت کسی بھی چیز کی ہو آخرکار اداس کر ہی جاتی ہے۔ اگر خوشی ہو تو وہ غم کا اندیشہ پیدا کر ہی جاتی ہے۔ خوشی ختم ہو جائے تو اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ خوشی کا عرصہ کتنا قلیل تھا۔ پھر ہم اس قلیل عرصے کو یاد کرکے دکھی ہو جاتے ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے چاہا جائے اسے پسند کیا جائے۔ مگر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کیوں نے ہی دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ یہ کیوں کیا ہے۔۔۔۔۔۔ہم زبردستی کسی کو کیوں پسند آنا چاہتے ہیں۔ اس کیوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اس کیوں کا جواب آج تک مفکر ادیب اور شاعر لکھ رہے ہیں۔
آج کا انسان اپنی اولاد سے دکھی ہوتا ہے کہ وہ تمیزدار نہیں ہے۔ آج کے بچے دکھ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ایک درگاہ پر اک شخص کو روتے ہوئے یہ دعا مانگتے سنا کہ اے میرے مالک میں نے سولہ سال پہلے جو دعا مانگی تھی اس کو رد فرما۔ جب کسی نے وجہ پوچھی اس شخص نے جواب دیا کہ میں سولہ سال بیٹے کے لئے دعا مانگی تھی۔مجھے بیٹا تو مل گیا مگر کیا بتاؤں وہ مجھ پر کتنا تشدد کرتا ہے۔ انسان کبھی بھی راضی نہیں ہوسکتا۔ وہ خوشی چاہتا ہے مگر کسی مقام پر اداس ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے مگر غم یہ کہ ایسا ممکن نہیں۔ مقدر میں موت لکھ دی گئی ہے اور یہ اس اذیت کی ابتدا ہے۔ جوانی میں میں تو ہر چھوٹے بڑے تہواروں کی خوشی کی شدت اور ہوتی ہے مگر بڑھاپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ زندگی قدم بڑھاتی ہے تو جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے ہوتے ہیں تو لاغر بن جاتے ہیں۔ آنکھوں کے چراغ مدہم ہو جاتے ہیں۔ آخری لمحات آخرت کی فکر میں گزرتے ہیں۔ تب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ آگے بھی دیوار ہے اور پیچھے بھی دیوار۔ وہ یہ دیکھ کر دکھی ہو جاتا ہے۔ وہ اس کچے مکان کا بھی مہمان بن جاتا ہے۔ اک ایسا وقت بھی آتا ہے جب ساتھ چلنے والےبچھڑ جاتے ہیں اور اجنبی ہمراہ ہو کے ہمراز بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے نکل جانا چاہتا ہے مگر نتیجہ دکھ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ گمنام اور بےنام دکھ پر روتا ہے مگر رونے سے دکھ نہیں جاتا۔ ایک دوست کا قریبی عزیز فوت ہوا۔ لوگوں نے کہا صبر کرو۔ تمہارے رونے سے اب وہ واپس نہیں آئے گا تو اس دوست نے جواب دیا کہ میں اس لئے روتا ہوں کہ اسں رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم لوگ انجان اذیت میں ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم کس سے دکھی ہیں۔ اپنے آپ سے یا لوگوں سے۔ حقیقت تو یہ کہ ہم مسافر لوگ ہیں۔ ہم ایک ٹرین میں بیٹھے ہوئے ہیں جو چل رہی ہے۔ ہمارے ساتھ والی سیٹ بھی خالی پڑی ہے اور ہمارے سر پر ایک گھٹڑی ہے جو وزنی ہے۔ وہ وزنی گھٹڑی احساس کی ہے۔ خیال کی ہے۔ گمنام اشیا کی ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ ہماری ملکیت بھی نہیں۔ ہمارے گھر ہمارے نہیں۔ ہماری چیزیں ہماری نہیں۔ کوئی کسی کا مالک نہیں۔ جہاں کی چیزیں جہاں ہیں وہی رہ جائیں گی چیزوں کو اپنا کہنے والا نہ ہوگا۔ ہم انجان جرم کی سزا پا رہے ہیں۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ہم کسی کو پسند نہیں کرسکتے ہم صرف اپنے آپ ہی کو پسند کرتے ہیں۔ خودپسندی بھی خودغرضی کی علامت ہے۔ ہم صرف اور صرف اپنے آپ کے مالک ہیں۔ ہم پر ذمےداریاں بوجھ ہیں ہم اس بوجھ کی وجہ سے دکھی ہیں۔ اگر ہم وسیع اور کشادہ ذہنیت سے سوچیں تو ہمارا ہونا یہ نہ ہونا ہماری ذہنیت پر ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے نہ ہونے سے سورج کے طلوع ہونے کا نظارہ عجیب ہوگا۔ تارے عجیب طریقے سے جگمگائیں گے۔ ایک دنیا آپ اس دنیا سےدور جا کر دیکھیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ سورج بھی معمول پہ ہوگا اور تارے بھی۔ ہماری خواہشیں ہمارا کرب ہیں۔ ہمارا غرور ہمارا ہی اپنا مذاق ہے۔ کسی کے لئے نفرت رکھنا ہمارے دل پر عذاب ہے۔ ہماری محبتیں قید ہیں جس کی وجہ سے رشتوں میں خلوص نہیں۔ محبت تو آزادی چاہتی ہے اظہار چاہتی ہے اب تو یہ محب پر انحصار کرتا ہے کہ آزادی دے یا پھر تڑپائے۔
میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بات کروں تو ہمارے گھر ہمارے لئے بند کوٹھری ہیں۔ ہم اس کے سوا کہیں جا نہیں سکتے اس لئے وہاں رہتے ہیں۔ ہمیں کہیں اور رہنے نہیں دیا جاتا اس لئے ہم زندان میں رہتے ہیں۔ ہم ریت کی دیوار ہیں۔ ہمیں ایک دن گر جانا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی فنا کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اطاعت والے کی اطاعت کرنا ہوگی۔ محبت محبت اور صرف محبت ہی دکھ سے آزادی کا باعث ہے۔ نہ کچھ کھونا ہے نہ پانا ہے۔ بس آنا ہے اور جانا ہے۔ تو پھر دکھ کس بات کا۔