الفاظ،علم اور انکی افادیت
زینب سیف
سمیسٹر فور – کمپیوٹر انجئینرنگ
الفاظ پانی کی طرح ہوتے ہیں جو بہہ جاتے ہیں لیکن انکے اثرات اس کمان سے نکلے تیر کی طرح ہوتے ہیں جو دل میں گھر کر لیتے ہیں سیدھےنشانے پر۔۔۔
الفاظ بھی اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں یہ بکھرے نہیں رہ سکتے۔۔۔ جب تک ہم انکی قدر نہیں کرتے انکو سمیٹتے نہیں یہ بھی خود غرض ہوجاتے ہیں اپنا معنی نہیں سمجھا پاتے ۔۔۔۔یہ ہر موقع پر ہر قدم پر ہر راہ پر ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔ انہی کی بدولت ہمیں لوگوں کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے۔
غور کریں تو یہ عمل ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے اور چین و گراں سے گزرتا ہوا قبر کی گود تک ہمارے ساتھ رہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ماں کی بہترین کوش کہ بعد سکول نامی ایک مرکز اس کا منتظر ہوتا ہے جہاں اسے پہلا لفظ پڑھایا جاتا ہے *الف*
وہ پڑھتا ہے ۔۔۔اور آہستہ آہستہ اگے بڑھتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ الفاظ کا چناؤ ،انہیں جاننا اور انکو سمجھنا اسکے لیے مشکل نہیں رہتا کیونکہ وہ پڑھ چکا ہوتا ہے ۔۔۔۔
ہر چیز کی ابتداء۔۔۔ اقراء۔۔۔
ہمارے نبی ص نے پڑھا تو ہمیں حقوق ملے صحیح غلط کی پہچان ملی اسلام پھیلا امن کا جھنڈا بلند ہوا ۔۔۔
ہمارے عظیم رہنماوں نے پڑھا تو دو قومی نظریہ کو سمجھے اور الگ وطن کا جھنڈا لہرایا اور پاکستان وجود میں آیا۔۔۔
ہم نے پڑھنا شروع کیا تو شعور کی دنیا کے مسافر ہو گئے۔۔۔
لیکن پھر ہم رک گئے اک فضا پھیل گئ جس نے ہمارے شعور کو ہماری سوچوں کو محدود کر دیا پھر اس لا محدود علم کی دنیا میں ہم بھٹکنے لگ گئے اور نہ صرف بھٹکے بلکہ *میں* کا ہتھیار بھی تھام لیا۔ ۔۔علم کو چھوڑ دیا اور جو حاصل تھا اسکو بھلا بیٹھے۔۔۔
پھر کسی رہنما کی امید پر کسی کے سہارے۔۔۔۔۔
اسی کشمکش میں بھول بیٹھےکہ ہماری تو ابتداء و انتہا اقراء تھی یہ تو وہ عمل تھا جس کے بارے میں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا ماں کی گود سے قبر کی لحد تک اسے مت چھوڑنا ۔۔۔۔
تو پھر کیوں ۔۔۔۔۔
ہمارے علم کا محور فقط ایک نوکری ہوتا ہے نہ کہ تسخیر کائنات جس کا مقصد حقیقت کی پہچان ۔۔۔۔۔پڑھ لیں۔۔۔ کما لیں۔۔۔ اچھا گھر ہو بینک بیلنس ہو۔۔۔ بس۔۔ اس سب میں ایک اچھا انسان کہیں کھو جاتا ہے۔۔۔۔ بزرگ کہتے تھے کہ ہم نے آج تک کسی غریب کو خشک آٹا کھاتے نہیں دیکھا سب اسے گوندھ کر پکا کر ہی کھاتے ہیں اسی لیے کمانا سب کچھ نہیں ہے آپ اس جہاں میں آئے ہیں آپ کا رزق لکھ دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ *دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام* ۔۔۔تو آپ اپنا مقصد حیات جانیے۔۔۔علم انساں کی سوچ کے دائرے کو وسیع کرتا ہے اسکی زندگی پرکشش بناتا ہے یہ وہ عمل ہے جو انساں کو روحانی طور پربوڑھا نہیں ہونے دیتا ۔۔۔۔اسی لیے پڑھیں یہ ابتدائے علم کی راہ ہے جو اس پر چل پڑے تو منزل کا تعین کرنا ناممکن نہیں رہتا اور اس راہ میں بہترین زاد راہ ایک کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔ایسی کتاب جو اپکی سوچ کے محور کے گرد ایک رنگین دنیا آباد کردے۔۔۔
کچھ صفحوں پر مشتمل
کچھ الفاظ کا انتخاب
کسی کا زاد راہ
کسی کی کل کائنات
کسی کی زندگی کا سبق
کسی کی سوچوں کا محور
کسی کی حیات
اک کتاب