عصر حاضر میں روحانیت

عصر حاضر میں روحانیت

تحریم عمران

بی ایس کیمسٹری

 

کائنات کی پیدائش و ارتقاء ایک غور طلب مگر پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جس پر صدیوں سے انسان غور و فکر اور جستجو کئے جارہا ہے ۔ اس جستجو کے نتیجے میں علم و ادب کے کئ ادوار نسلِ انسانی پر وا ہوئے کیونکہ فطری طور پر انسان کی قوتِ علمی اسکو دوسری مخلوقات پر فوقیت دیتی ہے۔  مگر وہ بنیادی سوال جو صدیوں کے غوروغوض  کے باوجود بھی انسان مکمل طور پر  سمجھ نہ سکا وہ ہے روح کی حقیقت اور اسکے تقاضے ۔پیغمبرانِ خدا اور اولیا مختلف ادوار میں نسلِ انسانی کی روح کی تشفی اور روحانی تربیت کے لئے اللّه کے وديعت کردہ علم کو انسانوں پر آسان لفظوں میں آشکار کرتے رہے ہیں۔اس سے  یہ مراد لیا جا سکتا ہے کے انبیاء کا پیغام ہی دراصل روح کی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھنے کی چابی ہی ۔ اگر ہر پیغمبر یا ولی کے پیغام کا جوہر تلاش کیا جائے تو وہ عشقِ حقیقی کے گرد گھومتا ہے۔ یعنی عشق انسان کی روح کو تندرست و توانا ركهنے کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے۔

عشق جو مختلف روپ میں کائنات کےطول و عرض میں پھیلا ہواہے۔ یہاں تک کہ ہم نادیدہ ذرے  یعنی ایٹم میں پروٹون  اور  الیکٹرون میں کشش  کی شکل  میں  عشق کی ایک بے حد مادی   حالت کو دیکھ سکتے ہیں ۔ پھر ہم اسکو حالتِ مجاز میں کائنات کی مختلف مخلوقات میں دیکھتے ہیں ۔ مگر انسان کا معاملہ برعکس ہے۔ انسان جسم و روح کا مرکب ہے۔ روحِ انسانی صدیوں پہلے عہد الست کر چکی ہے۔اطاعت اور محبّت کا عہد ۔ انسان تو اپنی تخلیق سے ہی عاشق ہے اور عشق کی ایک عظیم داستان کا حصہ۔ خالق اور مخلوق کی یہ محبّت صدیوں پرانی ہے ۔  اسکے تانے بانے تخلیقِ انسانی سے ملتے ہیں کہ جب انسان مٹی کا بےجان پتلا تھا جس میں روح پھونک کر خالق نے اسکی تکمیل کی اور اسکو علم کا تحفہ عطاء کیا ۔ محبّت کی دوسری انتہا ہمیں تب نظر آتی ہے جب زمین کا نائب زمین پر خالق کو منانے کے لئے  صدیوں تک مجسّم استغفار بنا رہا  ۔ انسان اور خدا کے مابین یہ محبّت ہی روح انسانی کا جوہرہے ۔ اگر روح کو غذا ملتی رہے تو خالق کی یہ محبّت پوری کائنات پر غالب آ جاتی ہے اور  اگر  اس محبّت کو دانستہ یا نادانستہ  بھلا دیا جائے تو روحانی تنزلی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ انسان جانوروں  کی صف میں شمار ہونے لگتا ہے ۔نسل انسانی کی روحانی تنزلی مادیت پرست معاشرے کو جنم دیتی ہے جس میں انسان بس اپنی مادی حالت کی بقا کی جد و جہد کرتا ہے اور اسکی راہ میں حائل ہر جذبے کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ عصر حاضر کی بےپناہ مادی ترقی اور روحانی تنزلی اسی حالت کی عکاس ہے ۔

ایسی صورت کہ  جب حیاتِ انسان کے دونوں پہلووں میں اس قدر غیراعتدالی آجائے یا تو انسان کی قرب المرگ روح اسکے چاق و چوبند جسم کو بھی خودکشی پر مجبور کر دیتی ہے ۔ یا پھر انسان اپنے فطری علم کو عمل میں لا کر اپنی روح کے علاج کے جتن کرتا ہے۔ بہر و بر ، خشک و تر، عبادت گاہوں اور  خانقاہوں میں نسخہِ عشق تلاش کرتا ہے ۔ اور اگر انسان کو یہ نسخہ مل جائے تو اسکو چاہیے کہ وہ اسکی حالت وہیت کی بحث میں الجھنے کی بجائے اسکو استعمال میں لائے۔ روح کی شفا عشقِ حقیقی میں ہے جیسے جیسے یہ عشق حالتِ ادنیٰ سے ترقی کرتا جائے گا ویسے ویسے روح اور جسم متوازن ہوتے جائیں گے اور انسان اپنی تکمیل کی طرف گامزن رہے گا ۔