سوفی کی دنیا۔۔۔ایک تعارف

سوفی کی دنیا۔۔۔ایک تعارف

محمد انور فاروق

ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز

کتابیں پڑھنا وقت کا بہترین استعمال ہے۔اس سے نہ صرف نئے خیالات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ انسان کی سوچنے ا ور حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب کسی دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اہل علم کتاب پڑھنے کے بے شمار فائدے گنواتے ہیں مثلا اس سے ذہن صحتمند رہتا ہے اور انسان بہت ساری نفسیاتی الجھنوں سے بچ جاتاہے۔ ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یاداشت بہتر ہوتی ہے۔ چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لکھنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔ تخیل کی پرواز اور تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کتاب پڑھنا انتہائی سستی اورآسان تفریح ہے۔کہا جاتا ہے کہ کتابوں کے بغیر ایک گھر ایسے ہی ہے جیسے بغیر کھڑکی کے کوئی کمرہ۔اگر کمرے میں کھڑکی نہ ہو تو اس میں تازہ ہو ا کا گزر بھی ممکن نہیں رہتا بالکل اسی طرح کتاب کے بغیر تازہ افکار وخیالات تک رسائی بھی ممکن نہیں۔

اکثر لوگ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہیں مگر اس سارے عمل میں وقت گزارنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا ۔ اگر مطالعہ کسی مقصد کے تحت ہوتو فائدہ زیادہ ہوتا ہے اس سے انسان کی صلاحیتیں مزید نکھر جاتیں ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پڑھے لکھے لوگوں میں مختلف موضوعات پر مضامین پڑھنے کا رواج تیزی سے مقبول ہو رہا ہے کیونکہ مختلف نوع کے مضامین انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت آسانی سے دستیاب ہیں۔کسی موضوع پر مختصر مضمون پڑھنے سے زیادہ فائدہ اسی موضوع پر ایک مکمل کتاب پڑھنے میں ہے ۔ کیونکہ کتاب پڑھنے میں زیادہ ٹائم لگتا ہے اور اس دوران قاری کو موضوع کے حوالے سے کافی کچھ سو چنے کا موقع مل جاتا ہے جس سے ذہن میں ایک بہتر آئیڈیا بن جاتا ہے۔ ان ساری باتوں کے ساتھ مطالعہ کا طریقہ بھی اہم ہے۔ مطالعہ کے دوران سوچنا بھی ضروری ہے کیونکہ سوچے بغیر مطالعہ محض وقت کا ضیاع ہے اور اس سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ مطالعہ کے دوران مختصر نوٹ لکھتے رہتے ہیں جس سے یادرکھنے کااور سمجھنے کا عمل کافی بہتراور تیز رفتار ہو جاتا ہے۔خیر کچھ بھی کہہ لیں مطالعہ ایک ضروری عمل ہے۔ اچھی کتاب نہ صرف قاری کے اعلی ذوق کو ظاہر کرتی ہے بلکہ آگے بڑھنے کے نئے راستے بھی دکھاتی ہے۔ایسی ہی ایک بہت شہرہ آفاق تخلیق ’Sophie's World ‘ ہے۔ یہ ایک ناول ہے جو ناروے کے ایک سکول ٹیچر ’جوسٹین گارڈر‘ نے ۱۹۹۱ میں لکھا۔نارویجن زبان میں لکھے گئے اس ناول نے بہت کم وقت میں مقبولیت حاصل کی۔۲۰۱۱ تک اس ناول کے دنیا کی انسٹھ زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور اب تک اس کی دنیا میں چار کڑوڑ کاپیاں فروخت ہو چکیں ہیں۔پاکستان میں اس کا اردو ترجمہ ’سوفی کی دنیا‘ کے نام سے شائع ہوا۔ مقبولیت کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ہوتا ہے ۔اس ناول پر ایک فلم، بہت سارے ٹی وی سیریلز اورکمپیوٹر گیمز بن چکے ہیں۔جوسٹین گارڈر فلسفے کے استاد ہیں اور یہ ناول انہوں نے اپنے طلبا کو آسان انداز میں فلسفے کے اسباق سمجھانے کے لئے لکھا۔ اس ناول میں فلسفے کی تاریخ کو کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور فلسفے کے تما م مکاتب فکر کا تعارف بہت سادہ ، آسان اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس ناول کو تمام طلبا کو لازمی پڑھنا چاہیے کیونکہ اس میں سارے جدید علوم کا تعارف، ان علوم کے آغاز اوربنیادی فلسفے کے حوالے سے بحث موجود ہے جس کو جاننا آج اس جدید دور میں ہر طالب علم کے کئے ضروری ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار ایک پندرہ سال کی بچی ہے جس کا نام ’سوفی‘ ہے اور دوسرا کردار اس کو فلسفے کی تعلیم دینے والا استاد ’البرٹو‘ ہے ۔ البرٹو بڑے پراسرار طریقے سے سوفی کی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ فلسفیانہ گفتگو کا آغازکر دیتا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ سوفی ایک دن سکول سے گھر آتی ہے تو اسے لیٹر بکس میں ایک لفافہ ملتا ہے جسے کھولنے پر سوفی کوچند ٹائپ شدہ کاغذ ملتے ہیں۔ یہ سوفی کا فلسفے میں پہلا سبق ہے جو البرٹو کی طرف سے اسے سالگرہ کے تحفے کے طور پر ملتا ہے اور یہاں سے کہانی کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔ ناول کے شروع کے صفحات میں سقراط ، افلاطون اور ارسطو کے نظریات کو بہت آسان اسلوب کے ساتھ واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی کچھ ایسے سوالوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کے بنیادی سوالات ہیں۔ البرٹو اور سوفی کے درمیان یہ گفتگو کئی مراحل پر مشتمل ہے جو کہ انسان کے صدیوں پر محیط اس سفر کی کہانی ہے جو اس نے اس کا ئنات کے اسرارکو سمجھنے کی خاطر کیا۔ ناول کے کرداروں کے درمیان چلنے والی سادہ اور عام فہم گفتگو میں بہت دلکش کہانی کے انداز میں یونانی تہذیب و فلسفہ سے لے کر جدیدمغربی تہذیب و فلسفہ تک کے سارے ادوار مفصل بیان کئے گئے ہیں اور مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے بڑے فلاسفرز کا تعارف و فلسفہ انتہائی قابل فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ناول کا اختتام کہانی میں ایک بڑے اور اچانک موڑ کی صورت میں ہوتا ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

جوسٹین گارڈر کا انداز تحریر بہت سادہ اور دلنشیں ہے۔زبان سادہ اور الفاظ کا چناؤ بہت شاندار ہے ۔ مشکل موضوعات کو جس سہولت کے ساتھ مصنف کا قلم پیش کر چکا ہے یہ مصنف کی مضمون پر مہارت کی دلیل ہے۔ناول میں ابواب کی تقسیم اور ابواب کے عنوانات بہت شاندار ہیں جو کہ قاری کے شوق مطالعہ کو بڑھاوا دیتے ہیں مثلا ’۔۔۔میرے سر پر ستاروں بھرا آسماں اور میرے اندر اخلاقی قوانین ہیں۔۔۔‘ اس باب کا عنوان ہے جس میں ’امینول کانٹ‘ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ بحرحال وہ تمام پڑھنے والے جو تاریخ اور فلسفے میں دلچسبی رکھتے ہیں ان کی تسکین شوق کے لئے یہ ایک لازوال کتاب ہے۔