ہردیپ سنگھ رندھاوا ۔۔۔ٹوٹتے پنجاب کی داستان
رضوان علی گھمن )اٹلی(
اس ناول کی کہانی اسی فیصد سے زائد سچ پر مبنی ہے۔ باقی 20 فیصد کا چھوٹا سا فکشن میں نے صرف اور صرف اس لئے ہردیپ سنگھ کی داستان میں مکس کیا ہے تاکہ اس کہانی کی تلخی کو کم کیا جا سکے۔ ورنہ یہ کہانی اتنی درد ناک تھی کہ میں اسے سنتے ہوئے رو پڑا تھا۔ میرا اس کہانی کو لکھنے کا حوصلہ ہی نہیں تھا اور مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر میں نے سب کچھ سچ لکھ دیا تو میرے پڑھنے والوں کی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ ہردیپ سنگھ رندھاوا ناول کی کہانی معاشرے کی وہ تلخ سچائی ہے جسے ہم پاکستانی یا انڈین سننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ہمیں ہماری مرضی کا سچ ہی سننا پسند ہے اور ہم اسے پچھلے ستر سال سے سنتے بھی چلے آ رہے ہیں۔ ہردیپ سنگھ رندھاوا کوئی روایتی ناول نہیں ہے۔ یہ ان سکھوں اور مسلمانوں کی آواز ہے جو تقسیم ہند کے فسادات میں نفرت کی بھینٹ چڑھ کر مارے گئے۔ یہ ان ویران گھروں بازاروں اور حویلیوں کی داستان ہے جن کے مکین کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ یہ کہانی کسی ایک ہردیپ سنگھ یا اس کے مسلمان دوست کی نہیں ہے۔ آپ مشرقی اور مغربی دونوں پنجابوں میں جائیں تو آپ کو ایسے سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں ہردیپ سنگھ مل جائیں گے جن کی کہانیاں آپ کو تڑپا کر رکھ دیں گی۔
ہردیپ سنگھ رندھاوا ان گمنام عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی داستان ہے جن کے خون سے انڈیا اور پاکستان کی بنیادیں رکھی گئی تھیں۔ یہ ان نوجوان لڑکوں کی داستان ہے جو اپنی ماؤں اور بہنوں کی عزتیں بچاتے ہوئے مارے گئے۔ یہ ان مسلمان ہندو اور سکھ بلوائیوں کی داستان ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھا اور انتقام کی آگ میں اندھے ہو گئے۔ جنہوں نے اپنی ایک بہن کی عزت کا بدلہ سینکڑوں بہنوں کی عزتیں لوٹ کر لیا۔
راضی پتر تقسیم ہند کی داستان وہ نہیں ہے جو ہمیں ہماری تاریخ کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ وہ بھی نہیں ہے جو ہمیں ہمارے بزرگ سناتے چلے آ رہے ہیں۔ تقسیم ہند کی داستان بڑی دردناک اذیت ناک اور بلاشبہ بڑی شرمناک بھی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ظالم اور مظلوم دونوں ہم ہی تھے۔ جہاں ایک طرف ہماری بہنوں کی عزتیں لوٹی گئیں تو دوسری طرف وہ ہم ہی تھے جنہوں نے ان عزتوں کو پامال کیا۔
ہردیپ سنگھ رندھاوا یہ داستان مجھے امریکہ سے آئے ایک پچانوے سال کے بوڑھے انڈین نژاد امریکی نے سنائی تھی۔ جو امریکہ سے سپیشل جرمنی مجھے اپنی کہانی سنانے آیا تھا۔ اور جسے میں نے سنتے ہی لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے اندر اسے لکھنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ راضی بیٹا تمہارے قلم کی کاٹ بندے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ میری یہ داستان تمہارے علاؤہ اور کوئی نہیں لکھ سکتا۔ وہیل چیئر پر بیٹھے اس بوڑھے کی آنکھوں میں التجا تھی۔ وہ اپنی کہانی انڈیا اور پاکستان کی نوجوان نسل کو سنانا چاہتا تھا۔ زمانے کی ٹھوکریں اور عشق ومحبت کا درد میں نے بھی بہت جھیلا تھا لیکن اس بوڑھے کے سامنے میرے عشق کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ مجھے اس کی کہانی نے رولا دیا تھا دو دوستوں کے عشق کی اس لازوال داستان میں بہت درد تھا لیکن میں پھر بھی اسے لکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ مجھے معلوم ہے ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں سچ سننے کی ہمت نہیں ہے۔ ہم لوگ اپنی اپنی ذاتوں اور قوم پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی ذات قوم اور ملک سچا اور باقی پوری دنیا جھوٹی لگتی ہے۔پچانوے سال کے اس بوڑھے سردار کو لگتا تھا کہ میں اس کی المناک کہانی کے ساتھ صحیح انصاف کر سکتا ہوں۔ اور یقین کیجئے میں نے کوشش بھی بہت کی ہے۔ میں نے پاکستان اور انڈیا کے روائتی لکھاریوں کی طرح صرف اپنی قوم اور ملک کو نہیں دیکھا ہے۔
راضی پتر ایک جٹ زمیندار کے لیے زمین ہی اس کی ماں ہوتی ہے۔ اور وہ جاٹ اپنی اس ماں کو کبھی بھولتا نہیں ہے۔ سیالکوٹ کے اس چھوٹے سے گاؤں کو میں بھی آج تک بھلا نہیں سکا ہوں۔ آج جب میں زندگی کی پچانوے بہاریں دیکھ چکا ہوں۔ اور بڑھاپے میں موت کی ہلکی آہٹیں سن رہا ہوں تو ایسے میں یقین کرو میری زندگی کی ایک ہی خواہش ہے میں زندگی کی آخری سانس اپنے بچپن کے اسی گاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں جہاں سے مجھے تیرے پاکستان نے نکالا تھا۔
راضی پتر میں اپنی یہ داستان انڈیا اور پاکستان کے ان حکمرانوں کو سنانا چاہتا ہوں جو آج بھی دشمن دشمن کھیل رہے ہیں۔ جو آج بھی طاقت اور اقتدار کے لیے لوگوں کو نفرتوں کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ جنہیں غریب بوڑھے کسانوں میں دہشت گرد نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اپنے ملک کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا ہے۔ جو لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ جنہوں نے لاکھوں بزرگوں سے ان کے بچپن کا گاؤں چھین لیا ہے۔ راضی پتر میں صرف بارڈر کو کھولنے کی بات کرتا ہوں۔ بوڑھے کسانوں کو ان کے آبائی گھر دکھانے کی بات کرتا ہوں۔ میں۔۔ میں تو صرف محبت کی بات کرتا ہوں۔
بوڑھا سردار اپنی داستان مجھے سنا کر واپس امریکہ چلا گیا۔ اور مجھے اس داستان کو لکھنے میں ایک سال لگ گیا۔ اس داستان کو پڑھتے ہوئے اگر آپ کو وہ درد اور بے بسی محسوس ہو گئی تو مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور امتحانات کبھی بھی آسان نہیں ہوتے۔
ہردیپ سنگھ رندھاوا اس ناول میں راضی ہردیپ سنگھ کا نام اور مقام دونوں فرضی ہیں۔ میں نے یہ داستان لکھتے ہوئے انہیں تبدیل کر دیا تھا۔ باقی یہ داستان ان دونوں کی محبت نفرت اور دشمنی سب سچ پر مبنی ہے۔ ان دونوں کی کانگریس اور مسلم لیگ میں شمولیت بھی سچ ہے اور ہردیپ سنگھ کی پنجاب کو پاکستان میں شامل کروانے کی کوششیں بھی سچ ہیں۔
اب آخر میں میری اپنے پڑھنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اس داستان کو دل کی آنکھوں سے پڑھیں اور پسند آئے تو پلیز آگے اپنے پیاروں کو بھی شیئر کریں۔ کتاب اگر آپ کو پسند آتی ہے تو اس کتاب کا حق بھی ادا کیا کریں۔ نئے لکھاری اس لیے دل برداشتہ ہو کر لکھنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کا کام چار لوگوں سے آگے جاتا ہی نہیں ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ میں ایکشن ایڈونچر اور تاریخ کے موضوع پر تیرہ ناول لکھ چکا ہوں لیکن ابھی تک میرا کام کسی منزل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ میرے ساتھ بھی میرے پڑھنے والوں کی بے وفائی ایسے ہی چلتی رہی تو شاید ایک دن میں بھی لکھنا چھوڑ دوں۔