معذرت کے ساتھ

معذرت کے ساتھ

ذوالفقار گبول

سمیسٹر تھری - ایل ایل بی

پہاڑوں اور سمندروں کو ریزہ ریزہ کرنے ، ان پر کمندیں ڈالنے اور انہیں قابو میں رکهنے والی قوت کا نام کتاب ہے۔)ڈاکٹر شاہ محمد مری(

یورپ میں ترقی پسندیت کی بہت سی تحریکیں چلیں۔ سب سے بڑی تحریک پندرھویں صدی عیسوی میں چلی جس سے علم عام آدمی تک پہنچنا ممکن ہوا جسے نشاط ثانیہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔

جس کے طفیل یورپ پوری دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اور اس علم کا پہچنا پرنٹنگ پریس کے ساتھ منسوب تھا۔ قبل ازیں جدید خیالات فلسفہ اور دیگر جملہ علوم لوگوں تک سینہ با سینہ پہنچتے تھے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر حکمران نٸے فلسفے اور نٸے خیالات کا مخالف ہوا کرتا تھا جب زبانی علم لوگوں تک پہنچا کرتا تھا تو اس وقت علم کو روکنا حکمران کے لیے آسان تھا۔ جدید سائنسی خیالات اور فلسفے کے علم کو ترویج دینے والے شخص کو مدتوں جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔

انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں۔

۔یعقوب الکندی، ابن رشد، ابن سینا، زکریا الرازی اور

سقراط کو کتابیں لکھنے اور نئے علوم دینے کے جرم میں عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔

چنانچہ جب پرنٹنگ پریس کا استعمال شروع ہوا تو یورپ میں چرچ اور بادشاہت جن کا ہمیشہ سے گٹھ جوڑ ہوتا تھا انہوں نے پرنٹنگ پریس کو بغاوت قرار دیتے ہوئے اس کی سزا سزائے موت تجویز کی۔

انگلستان میں کتابیں چھاپنے کے الزام میں آخری سزاۓ موت 1663 میں دی گٸی۔ اس کتاب میں مصنف کا نام نہیں تھا۔ پبلشر جون ٹوائن سے اس کتاب کے مصنف کا نام پوچھا گیا تو اس نے بتانے سے انکار کر دیا چنانچہ جون ٹوائن کو انگلستان کی مشہور عدالت سٹار چیمبرز میں سزاۓ موت سنا دی گٸی جس پر عمل درامد کیا گیا۔

لوگ صعوبتیں جھلیتے رہے لیکن جدید خیالات اور فلسفہ لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ اس وقت عام آدمی کیلئے علم کے دروازے بند تھے بادشاہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنے محل اور حویلیوں میں اتالیق رکھ لیتے تھے۔

ہاتھ کاٹنے کی سزا ناک کاٹنے کی سزا اور موت کی سزا جیسی بدترین سزاٶں کے باوجود کتاب نے یورپ میں مقبولیت حاصل کی۔

علم عام آدمی تک پہنچا تو نتیجتاً لوگوں نےبادشاہت کے اختیارات کو چیلنج کر دیا۔

جب صنعتی انقلاب نے جنم لیا تو اس میں صلاحیت اور اہلیت کی قدر بڑھی کیونکہ انڈسٹری مالک کے مفاد میں ہے کہ اس کے پاس بہترین انجینٸر، بہترین مکینک ،بہترین مارکیٹنگ منیجر، بہترین مزدور اور بہترین قانونی مشیر ہوں۔

جب لوگوں کو مہارت کی اہمیت کا احساس ہوا تو لوگوں کا کتاب سے لگاٶ بڑھ گیا۔

اگر ہم برصغیر کا جاٸزہ لیں تو

5000 سال پہلے ہندوستان میں عام آدمی کو علم حاصل کرنے کا حق نہیں تھا۔ صرف برہمن کو یہ حق حاصل تھا۔ جب برہمن سماج نے علم ایک مخصوص طبقے تک محدود کر دیا تو نتیجتاً ان علوم کے ساتھ ساتھ ان کی زبان سنسکرت بھی صفہ ہستی سے مٹ گئی۔

جب ہندوستان میں لوگوں کو جدید علوم کی اہمیت کا احساس ہوا تو یہاں مایہ ناز تعلیمی ادارے قائم ہوئے جن میں سرفہرست ٹیکسلا میں بُدھا کی یونیورسٹی ہے جس میں ریاضی منطق اور علم نجوم سمیت جدید علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ایک بار پھر جب ہندوستان پر ملوکیت نے پنجے گاڑھے تو حملہ آوروں نے بدیسی زبانوں کو ذرائع تعلیم بنا کر علم حکمران طبقے اور اہلکاروں تک محدود کرکے عام آدمی کیلئے دروازے بند کر دیے بالآخر تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے 3000 سپاہیوں نے 22 کروڑ کے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔۔

اکبر کے ہندوستان کے مقابلے میں الیزبتھ اول کا انگلستان ایک جنگلی معاشرہ تھا

اس دور کا انگلستان یورپ کے نقشوں میں نہیں دکھایا جاتا تھا وہ اتنا چھوٹا جزیرہ تھا کہ اس کو دکھانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی یہ سمندری لٹیروں کا جزیرہ سمجھا جاتا تھا۔

لیکن اس کے بعد اس چھوٹے سے جزیرے نے جو 400 سال پہلےنقشے میں نہیں ہوتا تھا دنیا کے 65 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا اور اس کی سلطنت میں سورج ڈوبنا بند ہو گیا۔

جبکہ

ہندوستان کے حکمران پندرہ پندرہ دن مشاعرے کر رہے تھے

اور چالیس چالیس دن تک رستم اور سہراب کی موت کا سوگ منا رہے تھے۔

رستم اور سہراب)نواب صاحب کے لڑاکا تیتر اور بٹیر تھے(

یہ معاشرہ تھا جس کو ایک ترقی پذیرمعاشرے نے شکست دی تھی جو کتاب اور قلم سے پیار کرنے والا معاشرہ تھا

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ آج بھی اس تنزل کا شکار ہے جس کا اس وقت کا ہندوستان شکار تھا کیونکہ ہمارے ہاں آج بھی عید کے چاند کو وہ لوگ چھتوں پہ چڑھ کے دیکھتے ہیں جن کو دس نمبر کی عینک لگی ہوتی ہے۔

جبکہ پتہ لگایا جا سکتا ہےکہ اگلے دوسو سال تک چاند کب اور کہاں نظر آۓ گا۔۔

وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید علوم اور کتاب سے ناطہ توڑ دیا ہے۔

ہم ایک خوشحال اور خوشگوار معاشرہ اس وقت تشکیل دے سکتے ہیں جب اس دورکا جدید علم ہمارے پاس ہو جس دور میں ہم زندہ ہیں۔

جدید ترقی اور خوشحالی کتاب سے رجوع کیے بغیر نا ممکن ہے۔