کرونا سے نہیں ، خدا سے ڈریں
محمد فیضان الحسن
سمیسٹر فور - بی ایس اسلامک سٹڈیز
موجودہ دور کے لوگ اِس بات کو یکسر بھو ل چکے تھے کہ اِس زمین کا ایک مالک بھی ہے ۔اُس نے چند صدیاں اگر آپ پر گرفت ڈھیلی چھوڑ دی تو اِس سے آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اِس دھرتی پر قانون اور مرضی اسی کی چلے گی۔ حالات یہ ہو چکے تھے کہ اگر کو ئی بیچارہ خدا کی بات کر تا تواُس پر دقیانوسیت کے الزامات لگائے جاتے ۔پھر االله ذات باری تعالی نے طاقت ٹیکنالوجی اور دولت کے گھوڑے پر سوا رقوموں کو ہلکا سا جھٹکا کرونا کی شکل میں دیا تو جو لوگ اپنی اپنی منصوبہ بندیوں کے نتیجے میں خود کو ناقابل تسخیر سمجھ رہے تھے وہ پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہوا۔ ’ترقی اور معاشی استحکام کے گھوڑے پر سوار قومیں حیران پریشان۔۔۔ کہ یہ کیا ہم تو ترقی کی اس انتہا پر تھے کہ کوئی ہمیں ہلا بھی نہ سکتا تھا ۔ آج کا ترقی یافتہ انسان بھی اِس وبا کے اسباب اور وجہ کو دریافت نہیں کر پایا اِس میں ایک ہی راز پنہا ں ہے کہ تم جو مصنوعی ترقی کے زعم میں بدِ مست ہاتھی بن گئے تھے یہ تمہاری مصنوعی ترقی ایک معمولی سے جھٹکے کی مار ہے۔ سنبھل جا ؤ فطرت کی طرف آؤ مصنوعی طاقت کے سیراب سے نکل کر حقیقت کی طرف آؤ ۔حقیقت کیا ہے ؟ وہ طرِز معاشرت جوقرآن مجید اور آقا کریم صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات پر مبنی ہو۔ جب تک ہم خد اکو اپنا حقیقی راہبر اور مالک نہیں مانیں گے اُس وقت تک کرونا سے جان نہیں چھوٹے گی ۔ہماری بقا اِسی میں ہے کہ استغفار کر کے خدا سے معافی مانگیں تاکہ خدا ہم سب کو معاف کر دے۔
دوسرا مسئلہ آجکل سب سے زیادہ یہ ہے کہ روزانہ مجھے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ڈپریشن ہو گیا ہے۔ خوف کی چادر میں لپٹا ہوا ہوں ۔نیند نہیں آتی شدید پریشانی اور خوف کا شکار ہوں۔ یہ کرونا سے کب جان چھوٹے گی؟ یہ گھروں میں قید رہنے کا وقت کب ختم ہو گا ؟ زندگی نارمل کب ہو گی؟ کیا ہم نارمل زندگی کی طرف جا پائیں گے کہ ہمارے معمولات زندگی پہلے کی طرح ہو جائیں ۔ ہم اِسی طرح قید میں رہے تو مزید ڈپریشن میں ڈوبتے جائیں گے ۔ تو ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مشکل وقت ہر قومِ پر آتا ہے لیکن ان مشکلات ،وباؤں اور آفتوں سے کامیا بی سے کسی قوم کا نکلنا اس چیز پر منحصر ہے کہ متاثرہ قوم کا ردعمل کیا ہے۔ ردِِ عمل کی مثال آپ اِس طرح سمجھ پائیں گے کہ چین، جنوبی کوریا اور جرمنی میں کرونا وبا جب پھیلی تو انہوں نے فوری معاملے کی سنجیدگی کو سمجھا۔ فوری مناسب اقدامات اٹھائے ۔ ہر شہری کو ٹیسٹ کے عمل سے گزار کر متاثرہ لوگوں اور بوڑھوں کو الگ کر لیا۔ مشکل وقت گزر گیا۔مگر دوسری طرف اٹلی، سپین ،فرانس ، برطانیہ اور امریکہ میں مناسب اقدامات کرنے میں دیر ہوئی تو بربادی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس کا تماشہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ امریکہ کہتا تھا جو کچھ ہو گا ہم دیکھ لیں گے ہم بہتر نظام صحت رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود متاثرہ مریضوں کی تعداد وہاں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اس وبا کا سماجی، کاروباری اور خاندانی زندگی پر بہت برا اثر ہوا۔ اب جب مشکل وقت آہی گیا ہے تو اِس کو گزار لیا جائے کیونکہ اگر آپ رو پیٹ کر گزاریں گے تو بھی وقت تو اپنی رفتار سے ہی گزرے گا آپ کے رونے پیٹنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوِ جانے اور نہ ہی حال اور مستقبل کے وسوسوں کی موجودگی میں آپ خوش ہو سکتے ہیں۔ اِن حالات میں صرف اور صرف اپنی موجودہ خوشیوں اور الله کی دستیاب نعمتوں کا احساس کر کے ان سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیں۔ دوسری بات اِس دنیا میں کامیاب پر امن معاشرے اور سکون کے لیے اچھے صالح شہریوں کی بہت ضرورت ہے جن سے مل کر اجتماعی معاشرے تشکیل پا تے ہیں اِس لیے الله تعالی نے اپنا تصور اتارا کہ تمہارا ایک خدا ہے جو تمہاری ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے آپ ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان خدا سے دوستی لگا لیں۔ کیونکہ تاریخ انسانی کا ورق ورق پڑھ لیں جس نے خدا کو دل سے روح سے مان لیا وہ یہاں بھی کامیا ب اور اگلے جہاںمیں بھی کامیاب ہو گا۔ جس انسان نے خدا سے دوستی لگالی وہ پھر زمینی خداؤں اورمستقبل کےخوف سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ آج کا انسان موجودہ مادیت پرستی سے بھر پور زندگی میں خدا سے دور ہو گیا تھا ۔بے پناہ مصروفیت میں وہ خدا کو بھول بیٹھا تھا ۔ اب خدا نے موقع دیا ہے انسان کو غور و فکر کرے کا۔ خدا کے پیغام کو سمجھ کر اپنی روح میں اتاریں پھر آپ دیکھیںِ کہ کس طرح آپ ڈپریشن اور خو ف سے آزاد ہو تےِ ہیں۔
موجودہ انسان جس مصنوعی ترقی سائنس عقل مندی کے غرور میں ہوامیں اُڑ رہا تھا خدا نے ایک جھٹکے میں اُس کو زمین پر دے مارا ہے۔ کرونا کے بعد انسان اچھی طرح جان گیا ہے کہ سائنسی ترقی سپر پاورز کے بنائے ہو ئے نظام اور معاشی استحکام زندگی کی ضمانت نہیں ہیں۔ یہ بات سارے ڈاکٹر اور طبی ماہرین پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں کا مدافعتی نظام مضبوط ہو گا وہ اِس بیماری کے اثرات سے بچ جائیں گے۔ مگر کس کا مدافعتی نظام کارآمد ہو گا اور کس کا نہیں یہ خدا کے اختیار میں ہے ۔ ترقی یافتہ قومو ں کے لیے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا ہے کہ افغانستان، بنگلہ دیش اورسری لنکا جیسے غریب ملکوں میں کرونا نے اُس طرح تباہ کاریاں نہیں مچائیں جیسا کی ترقیِ یافتہ ملکوں میں ہوا ۔ جب زندگی اور موت پیدا کر نے والے کے ہاتھ میں ہے تو کیوں نہ ہم اُس خدا سے دوستی کر لیں اُس کو اپنا حقیقی راہبر مان لیں۔ اپنی پچھلی کو تاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگ کر یہ وعدہ کر یں کہ آئندہ کے لیے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔اس کے بعد آپ دیکھیں گے ڈپریشن ختم ہو گا اورایک نئی امید اور توانائی کا احساس ہو گا ۔اور جان لیں کہ خدا اپنے بندوں کو کبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا۔