متعدی امراض, کرونا وائرس اور آپ ﷺ کا عمل مبارک
ماجد رشید
ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو وجود بخشا اور اپنی تمام مخلوقات کو وجود بخش کر بے یار و مدد گار چھوڑ نہیں دیا بلکہ مختلف حوائج ، ضروریات ، حالات کے اعتبار سے اپنی کتابوں اور اپنے مبعوث نبیوں اور رسولوں کے ذریعے جامع تعلیمات بھی عنایت کی ہیں ۔ مخلوقات میں سب سے افضل اور سردار مخلوق انسانوں کو بنایا اور دوسری مخلوقات کی نسبت انسانوں کو اتم احکامات مہیا کیے ۔
انسانوں کے مختلف احوال میں سے ایک حال انسان کے جسمانی حوائج اور ضروریات ہیں اور انسان کی روح کی طرح جسم کو لاحق ہونے والی بیماریاں ہیں ، پھر بیماری کے لاحق ہونے کے بعد ان کے علاج کی حیثیت ہے اور ان بیماریوں کے لاحق ہونے کے بعد احتیاطیں اور وہ امور ہیں جن کا بیماری کی حالت میں لحاظ کرنا ضروری ہے۔ موجودہ دور میں ان ہی بیماریوں میں سے ایک بیماری کرونا وائرس ہے جس نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار اور انسانیت کی کمزوری کو عیاں کیا ہے۔
دنیا میں ‘‘نوول کرونا’’ کوئی پہلی وبائی بیماری نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سی وبائی امراض پھوٹے ہیں، چودہویں صدی میں دنیا میں ‘‘طاعون’’ کی وباء پھیلی جب تک اس کو کنٹرول کیا جاتا اس نے کچھ ہی عرصہ میں بیس کروڑ انسانی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔1666ءمیں برطانیہ میں طاعون سے ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں ہیضہ کی وباء پھوٹ پڑی تھی جس نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا تھا۔1950 میں پولیو کی بیماری کی تشخیص ہوئی جس سے اب تک لاکھوں انسان متاثر ہیں اور یہ بیماری اب تک موجود ہے۔ ٹی بی کو بھی ایک عرصہ تک متعدی بیماری سمجھا جاتا رہا مگر اس کے علاج کی دریافت کے بعد اس کا خطرہ اب کم ہوگیا ہے۔ چیچک کا مرض اٹھارہویں صدی میں سامنے آیا تھا لیکن 1950 میں اس نے وبائی شکل اختیار کرلی تھی جس سے دو دہائیوں کے دوران تین کروڑ انسان متاثر ہوئے تھے۔1970 میں اس مرض کی وبائی شکل پر قابو پا لیا گیا تھا۔1918 میں زکام کی شکل میں ‘‘سپینش انفلونزائ’’ پھیل گیا اور بہت بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتیں ہوئیں جن سے یورپ میں دس کروڑ انسان متاثر ہوئے تھے اور امریکہ میں بیس لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے تھے۔
اگر ہم بنظر غائر سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیماری اپنی ذات کے اعتبار سے تو متعدی نہیں ہے ، لیکن بیماری کے جراثیم متعدی ہو سکتے ہیں نیز اس طرح کے حالات میں اگر اختلاط سے کسی کو مرض لاحق ہو گیا تو ہم یہ عقیدہ بنا لیں گے کہ بیماری ذات کے اعتبار سے متعدی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا ، اس لئے احتیاطی امور کا حکم دیا گیا ۔ مریض کے علاج معالجے اور اختلاط کے دوران احتیاطی امور پر مدنظر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
آپ ﷺ کا عام معمول یہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت اور پریشانی آتی ، آندھی طوفان کی شکل میں ہو یا آفات و بلیات کی شکل میں آپﷺ مسجد کی طرف جاتے اور مسجد میں حضرات صحابہؓ کو جمع کر تے ،نماز اور دعا کی تلقین فرماتے۔حضرات صحابہؓ کی زندگی میں بھی یہ چیز بہت اہمیت کے ساتھ ملتی ہے:
’’ قال اتیت انسا فقلت یا أبا حمزۃ ،ہل کان یصیبکم مثل ہذا علی عہد رسول اللہ ﷺ قال :معاذ اللہ ان کانت الریح لتشتد فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ‘‘(سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر :1196)
اس لیے آج جب کہ پوری دنیا میں کرونا وائرس کی دہشت ہے مسلمانوں کو نماز او ردعا کا خاص اہتمام کرنا چاہیے حدیث میں آتا ہے کہ اس موقع پر جن خاص دعاؤں کا ا ہتمام کرنا چاہیے ان میں چند یہ ہیں :۔
1۔ بِسْمِ الله الَّذِي لا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأرْضِ وَلا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السميع الْعَلِيمُ(امام احمد بن حنبل،مسند احمد ،حدیث نمبر 447)
اس اللہ کے نام سے جس نے کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے ۔
حضرت عثما ن کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح میں یا شام میں تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے تو اس دن کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔
2۔ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ،(امام احمد بن حنبل، مسند احمد حدیث نمبر 7884)
میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جواس نے پیدا کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں جو شخص شام ہونے پر تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے اس رات اسے کوئی زہریلی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے ۔
3۔ "اللهم إني أعوذ بك من الَبرَص، والجُنُون، والجُذَام، وسَيِّء الأسقام"(سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد ،حدیث نمبر 1554)
اے اللہ ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیں برص سے جذام سے جنون سے اور بیماریوں سے ۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس دعا کا معمول تھا ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بیماری میں علاج و احتیاط کرنے اور آپ ﷺ کے اُسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین