ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں
محمد منیب اللہ
بی ایس انگلش
موضوعِ تحریر بظاہر تو اقبال کی ایک نظم کا چھوٹا سا مصرع ہے۔ مگر یہ چند الفاظ اس خوفناک سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمان آج پستیوں کا شکار ہیں۔ذرا تاریخ کے اوراق پلٹئے اور آج سے چند صدی قبل کا منظر نامہ ملاحظہ فرمائیے ! جب مسلم تہذیب اپنے بام عروج پر تھی۔ آپ کو ایک شاندار ماضی ملے گا جس میں آپکو جہاں علم دین کے جبال العلم علماء ملیں گے وہیں سائنسی علوم و فنون اور فنون لطیفہ کے اپنے وقت کے ماہر ترین اور بےشمار ایجادات کے موجد لوگ بھی ملیں گے۔
جابر بن حیان،الخوارزمی،الکندی، الرازی، ابن الہیثم، البیرونی، رونی، ابن سینا، عمر الخیام، ابن بطوطہ ،ابن خلدون ،، یہ تو چند نام ہیں جو تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہ گئے ورنہ بےشمار ایسے ماہرین تھے جو یا تو تاریخ کی بے رحم لپیٹ میں آ کر بُھلا دیے گئے یا ان کی تحقیقات اور ایجادات دوسری اقوام نے چوری کر کے اپنے نام سے منسوب کر دیں۔ الغرض خلاصہ یہ کہ ہم نے علوم دین و دنیا دونوں میں اپنا لوہا منوایا اور یہی ہمارے بام عروج تک پہنچنے کاراز تھا۔
باطل یہ بات سمجھ گیا کہ جب تک مسلمانوں کو سائنسی علوم سے دور نہ کیا گیا تب تک ان شمشیرِ بے نیام سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ پھر باطل نے ہمارے حکمرانوں اور ان کے مشیروں پر محنت کی اور ہماری سوچ کا رخ سائنسی علوم میں ترقی پانے کی لگن اور جستجو سے موڑ کر محض فنون لطیفہ ، عمارات سازی اور ان جیسی دیگر لاحاصل چیزوں کی طرف موڑ دیا۔
بزبانِ اقبال
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ہم یہ تک بھول گئے کہ ہمیں اللہ پاک کی طرف سے ``اَعِدُّوا لَھُم مَّا استَطَعتُم`` کا حکم اور اللہ کے حبیب ، عظیم ترین سپہ سالار رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ``طلب العلم فریضۃ علی کل مسلمکی نصیحت ملی تھی۔بہرحال قصہ مختصر ہم پستی کی بےشمار منازل طے کرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر آ کھڑے ہوئے جہاں ہماری سوچ محدود ہو چکی تھی۔ہم نے دین کو محض چند عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے مجموعے تک محدود کردیا گیا. ہمارے دل و دماغ سے معاشرت،سیاست اورمعیشت کے عروج کو نکال کر محض زاہد و عابد ہونا ڈال دیا گیا. مسلمانوں کے دماغ سے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کو نکال کر محض آخرت کی کامیابی کو ڈال دیا گیا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ فلاح تسبیح کرلو تو یہ فائدہ ہے،فلاں وظیفہ کرلو تو وہ فائدہ ہے۔تسبیحات اور وظائف کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر صرف ان پر ہی تکیہ کر لینا اور اعلائے کلمۃ اللہ کا وہ عظیم الشان مقصد جس کے لیے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ ``کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ، تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر``۔ یہ عظیم الشان مقصد ہمارے دل و دماغ سے نکال دیا گیا۔
اقبال نے زاہدِ فقط کے بارے میں بڑا خوب کہا کہ
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
معزز قارئین! یاد رکھیے کہ حضرت انسان کو جب بھی ترقی کی معراج ملی ، علم کی بدولت ہی ملی۔
وہ علم ہی تھا جس نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل کر دیا!
وہ علم ہی تھا جس نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت برقرار رکھی!
وہ علم ہی ہے جس کی بدولت باطل آج بامِ عروج پر ہے!!
اور ہم نے علم کو اسکے وسیع تر معانی و مفاہیم سے خارج کر کے انتہائی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض چند دینی عبادات تک محدود کر دیا۔
میرے دوستو! میرے اللہ کا قرآن اور میرے اللہ کا اتارا گیا علم کا وہ عظیم الشان خزانہ اتنا چھوٹا نہیں کہ اس کو محض مسجد اور مدرسوں تک محدود کر دیا جائے.
جبکہإِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ کے تحت یہ کام مسلمانوں کا تھا کہ وہ اس زمین و آسمان اور اس کائنات کے پوشیدہ اور سربستہ رازوں پر تحقیق کرتے اور ان سے پردہ اٹھاتے! مگر افسوس! ہماری توانائی اورتحقیق تو محض ایک دوسرےکو کافر ثابت کرنے پر خرچ ہوتی رہی اور باطل محنت کر کر دنیا میں عروج پا گیا۔
امید کی کرن ابھی بھی باقی ہے!
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو وہ رخ دیں!
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے علم کو وہ تقویت دیں!
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سنہرے ماضی کی یاد تازہ کر کے دوبارہ دنیا میں چمکیں!
اس میں یقینا وقت لگے گا۔شاید ہم وہ وقت نا دیکھ پائیں لیکن اگر ہم نے محنت کی اور اپنی نسلوں کو بھی یہی سوچ منتقل کی ، تو پھر انشاءاللہ ایک وقت آئے گا جب مسلم سلطنت کا پرچم ایک بار پھر دنیا میں لہرائے گا۔اور ``اعلائے کلمۃ اللہ`` کے فریضے میں ہمارا حصہ بھی دامے،درمے،سخنے شامل ہوگا۔ پھر یقینا اللہ پاک بھی ہماری سنیں گے اور دنیا میں بھی وہ عروج دیں گے جس کا اللہ پاک نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے۔جواب شکوہ میں اقبال اسی بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں