ذوق مطالعہ کی ضرورت

ذوق مطالعہ کی ضرورت

ذوالفقار گبول

ایل ایل بی

 

سترہ جون 2020 کو گوگل نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان میں کرونا کے دنوں ای مارکیٹ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں کھانوں کی ترکیب ورزش کے طریقے شامل ہیں اورسعید بک بینک اسلام آباد کے مالک احمد سعید نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کرونا کے دوران پاکستان میں 75 فیصد کتابیں پڑھنے اور خریدنے میں کمی ہوئی ہے جبکہواشنگٹن ڈی سی کی پبلک لائبریری سے کتابیں جاری کروانے والوں کی تعداد میں 37 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مشہور معقولہ ہے کہ ریڈرز ہی لیڈر ہوتے ہیں اس لیے ہم نے بھی ادب کو پروان چڑھانے کا عزم کر لیا ہے۔

 ہاکڑا تہذیب کی علمبردار دھرتی پہ قائم عظیم المرتبت صوفی شاعر خواجہ فریدؒ کے نام سے منصوب اس نخل ثمر کے سائے تلے ادبی انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا نام ہے KFUEITریڈرز اینڈ رائیٹرز کلب ۔ اپنی کھوئی وراثت میں نئی روح پھونکنے اور نوجوان نسل میں ادب کو فروغ دینے کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسےکوئی زینہ زیست پر کھڑے ہو کر  بادہ ناب کا خواب دیکھ بیٹھے اوراپنی جستجو کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے عزم بھی رکھتا ہو۔بلاشبہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کتاب سے رابطے کی بحالی اور علم و ادب کی طرف مائل کرنا  کٹھن کام ہے۔  مشہور یونانی ڈرامہ نگار یوری پیڈس کہتا ہے کہ جو نوجوان کتابوں سے دوری اختیار  کرےگا وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے مردہ ہوگا۔صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ”الجاحظ“ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

ایک آدمی سینکڑوں کتابیں پڑھنے اور سالوں کے تجربے سے گزرنے کے بعد کتاب لکھتا ہے اور پڑھنے والا جب چند دنوں میں وہ کتاب پڑھ لیتا ہے تو وہ سالوں کا سفر چند دنوں میں سمیٹ لیتا ہے۔  مزید انسان اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہونے پاتا۔فصاحت و بلاغت کے علاوہ خیالات میں پاکیزگی علم میں اضافہ، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔پڑھنے والا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتا ہے۔کرسٹل رسل کہتا ہے کہ مطالعہ آپ کے ذہنی تناؤ کو ختم کرتا ہے جس کی وجہ سے آپ اپنی زندگی کے بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم بطور قوم اپنے اندربہتری لانا چاہتے ہیں ذوق مطالعہ پیدا کرنا ہو گا ۔ جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہوجائے وہاں نیا علم بھی تخلیق نہیں ہوتا۔جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔اس لیے یقینِ کامل ہے کہ وراثت پہ لگے زخموں پر مرہم رکھنے  کیلئے متلاشیان دانش کا یہ قافلہ عظیم اساتذہ کی رہبری میں نئی منزلیں تلاشتا رہے گا۔