وائس آف کامرس
احسن فرید الدین
ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز
کاروبار کا آغاز پیدائش آدم سے ہے اور روز جزا ( قیامت) تک اپنی جدت کے ساتھ جاری رہے گا انسانیت پتھر کی غاروں، جھونپڑیوں میں رہنے سے لے کر آج آسائشوں والے گھروں، محلات میں تمام لوازمات کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارنے میں مصروف ہے اچھے سے بہتر اور بہتر سے بہترین میں لگی اقوام عالم قدرت کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کر کہ ان کو انسانیت کے تابع کرنے میں لگی ہے۔
اس سارے چکر میں روزی روٹی، خواہشات کی بھرپائی اور خود نمائی وہ اہم نقاط ہیں جس نے ایک عام انسان کو معاشرے میں نمایاں افراد سے الگ کر کہ رکھ دیا ہے معاشرے میں مقام شناخت اور موثر ہونے کے لئے آج کی اس مادی دنیا میں وسائل کا کس بھی شخص کے پاس ہونا اور پھر ان کا بہترین استعمال یہ اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہ تو داستان سفر ایک انسان کی ہے جو اپنے وجود کا احساس اپنے کام سے کرواتا ہے ایک فرد معاشرے کی اکائی ہے اور اس فرد سے قومیں بنتی ہیں اور قومیں ہی دنیا میں اپنے شعار اور اطوار سے تاریخ رقم کرتی ہیں اگر ہم بغور اس امر کو دیکھیں تو وہی قومیں دنیا کی صف اول میں نظر آتی ہیں جنہوں نے وسائل کو انسانیت کے معیار کو بلند کرنے میں لگا دیا۔
تعلیم صحت اور ضروریاتِ زندگی کو اگر پور کیا جا رہا ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک ملک یا قوم ترقی کی سیڑھی پر چڑھ سکے گی لیکن اگر کوئی ملک اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے تعلیم صحت اور ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہو تو اس ملک میں اصلاحات کی ضروت ہوتی ہے یہی اصلاحات کبھی تو تاریخ کا سنہرا باب بن جاتی ہیں اور کبھی قوموں کے تشخص کے خاتمے کا باعث بھی بن جاتی ہی۔
دنیا میں ہر ملک کی معیشت کا مؤثر پن جانچنے اور قوموں کی ترقی کو ماپنے کے لئے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کو دیکھا جاتا ہے فخر کی بات یہ ہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے موجد پاکستانی معیشت دان محبوب الحق ہیں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس 2020 کی رینکنگ کے مطابق ناروے، آئرلینڈ، سوئٹزرلینڈ بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں اور کوئی بھی اسلامی ملک پہلے تیس نمبروں میں شامل نہیں ہے متحدہ عرب امارات اکتیسویں نمبر پر، سعودی عرب چالیسویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 154ویں نمبر پر ہے تسلی کی بات یہ ہے کہ پچھلے 5 سالوں کی نسبت بڑھوتری کا تناسب گزشتہ سال 2 فیصد زیادہ ہے۔
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے معیشت دان جو دنیا کے بڑے اداروں میں اپنی خدمات دینے میں سرگرم رہے ہم نے اس ملک کے لئے کون سی اصلاحات پیش کی اور ان کو کس طرح نافذ کیا؟ یہ سوال تو سوالیہ نشان کی خم زدہ لکیر اور نقطے کے ساتھ زیر بحث رہے گا۔میں وسیب کا باسی ہوں مجھے اس خطے کے دکھ درد پر شدید غم بھی ہوتا ہے اور کاروباری بڑھوتری کا مان بھی ہوتا ہے۔
اس خطے کے وسائل ہی ہماری طاقت ہیں اگر اس وسیب اور پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان کی بات کروں تو اس کی جغرافیائی حیثیت بہت اہم ہے معاشی لہذا سے اس ضلع میں پرائمری انڈسٹریل سیکٹر جو کی قدرتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے زرعی پیداور دیتا ہے اور ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور سیکنڈری انڈسٹریل سیکٹر کو خام مال مہیا کرتا ہے اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھا رہا ہے۔
سیکنڈری انڈسٹریل سیکٹر جو کہ خام مال کو تیار مال کی شکل میں منڈیوں میں بھیجتا ہے وہ بھی اپنے کمال پر ہے رحیم یار خان کے صنعتی پیداوری یونٹس جن میں 100 سے زیادہ فلور ملز، 5 شوگر ملز، سیکنڑوں آئل ملز اور کاٹن جیننگ فیکٹریاں، ہیوی انڈسٹری میں یونی لیور، ایف ایف سی ، فاطمہ فرٹیلائزرز، اینگرو فرٹیلائزر اور بے شمار سیڈ کمپنز شامل ہیں جن میں جالندھر سیڈز جو کہ ایشیا میں اپنا اہم مقام بنا رہی ہے شامل ہیں اور تیسرے درجے کے انڈسٹریل سیکٹر جو کہ پرائمری اور سیکنڈری انڈسٹریل سیکٹر کو سروسز فراہم کرتا ہے اس میں اداروں کی ایک وسیع لسٹ شامل ہے جن میں مستحکم مالیاتی ادارے بنک، انشورنس کمپنیاں اور کئی لیزنگ کمپنیوں کے دفاتر رحیم یار خان میں واقع ہیں اور بلین رپوں کے ٹرن اوور دے رہاہے۔
تعلیمی اداروں میں سر فہرست جن میں شیخ زید میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، خواجہ فرید یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا کیمپس، بے شمار پرائیویٹ سکول اور کالجز شامل ہیں جو کہ نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں بلکہ پورے پاکستان سے نوجوان اب ان تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں بے شمار آئی ٹی کمپنیاں اور فری لانسرز جو کہ لاکھوں ڈالر کا کاروبار کر رہے ہیں اور اس موقع پر میں ان سمندر پار پاکستانیوں کا ذکر خاص طور پر کروں گا جن کے پسینے سے اس ملک کے زرمبادلہ میں اصافہ ہوتا ہے، جس طرح اپر پنجاب کے باسیوں نے پورپ اور مڈل ایسٹ کو اپنے روز گار کا مسکن بنایا ہے اس طرح اس ویسب کے تقریباً ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد گلف کے ممالک میں اپنے خون پسینے سے درھم، ریال اور دیناروں کی بارش کرنے کے لیے محنت میں مصروف عمل ہےایک محتاط اندازے کے مطابق 26 لاکھ پاکستانی صرف سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب مزید کئی نئے شہر بسانے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے تقریباً 10 ملین افراد کو روزگار ملے گا اور شاہ سلمان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اس بات کا عہد بھی کیا ہے کہ ان مواقعوں میں سب سے زیادہ حصہ پاکستانیوں کا ہو گا! ضلع رحیم یار خان کے ہزاروں تجارتی اور کاروباری مراکز کو خدمات اور رہنمائی فراہم کرنے کے لئے رحیم یار خان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز جو کہ پنجاب کے بڑے چیمبرز میں اپنی تقریباً 2000ممبر شپس اور کارکردگی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ اس ضلع کے اس پروفائل کو قارئین آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد صرف اور صرف ان اصلاحات کے بارے میں بات کرنے کے کوشش ہے جن اصلاحات اور کاوشوں سے قومیں مستقبل کے لئے کار آمد اور تاریخ کے لئے سنہرے حروف اور کارنامے رقم کرتی ہی۔
سی پیک جو کہ اس ملک اور اس خطے کی تقدیر بدلنے میں گیم چینجر ہے اس کی جغرافیائی وقعت نے اس ضلع کو جو مواقع دیے ہیں ان میں رحیم یار خان انڈسٹریل اسٹیٹ کو اکنامک زون تبدیل کرنے سے لے کر انفرااسٹرکچر کی مجموعی حکمتِ عملی کو مزید تقویت دی ہے اور پرائمری، سیکنڈری اور تیسرے درجے کے انڈسٹریل سیکٹر یعنی سروسز سیکٹر کو سی پیک کے روڈ نیٹ ورک نے مزید مؤثر کر دیا ہے۔
لیکن اس پورے انفرااسٹرکچر کی اہمیت اور سالمیت میں استحکام اس وقت مزید کار فرما ہو گا جب سپلائی چین مینجمنٹ، سکلز ڈویلپمنٹ، ریسورس یوٹیلائزیشن اور نالج اکانومی اور انڈسٹریل لنکیج مضبوط اور مربوط ہو گا۔ کہتے ہیں کہ خدا نے ہر کسی کو کسی نا کسی خاص مشن کے لئے چنا ہے اس سلسلے میں جنرل عاصم سلیم باجوہ چیرمین سی پیک اتھارٹی بھی اسی دھرتی کے سپوت ہیں حال ہی میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر کی اہم ملاقات جنرل عاصم سلیم باجوہ چیرمین سی پیک اتھارٹی سے ہوئی پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہرجوکہ نالج اکانومی کے لیڈر اور اس خطے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کے نوجوانوں کے مسقبل کے لئے کوشاں ہیں، انہوں نے سی پیک پروجیکٹ میں سکلز ڈویلپمنٹ، ریسورس یوٹیلائزیشن کے حوالے سے جنرل عاصم سلیم باجوہ کو خواجہ فرید یونیورسٹی کے خدمات کو سی پیک کے لئے اور سی پیک میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے یونیورسٹی کی طرف سے ایک میعاری سکلز ڈویلپمنٹ سینٹر کے قیام کا اعلان کیا اور جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اس اقدام کو سراہا اس ضمن میں خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کی تمام تحصیلوں میں سکلز ڈویلپمنٹ سنٹر کے قیام کو جلد یقینی بنائے گی۔ اس سے قبل رحیم یار خان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے تعاون سے خواجہ فرید یونیورسٹی انڈسٹریل زون رحیم یار خان میں ایک اور پروفیشنل لرننگ ھاؤس بنانے کے حوالے سے مصروف عمل ہے جہاں پر انڈسٹری کے لئے ماہر افراد اور انڈسٹری میں پیدا ہونے والے مسائل کے فوری حل کے لئے ایکسپرٹس کی کی موجودگی اور صنعتی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام کیا جائے گا۔
اگر ہم اس علاقے کو مزید ترقی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تینوں انڈسٹریل سیکٹرز جن میں زراعت، پیداواری یونٹس اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو سہولت کاری دینی ہو گی اس ضمن میں تعلیمی اداروں کا کردار اور سرمایہ کاری کی اہمیت اور زرمبادلہ بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کی فیملیز کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے رحیم یار خان میں اورسیز کارپوریشن آف پاکستان کے سکریٹریٹ کا قیام اور رحیم یار خان ائیرپورٹ پر انٹرنیشنل فلائٹس کی آمد اور روانگی کا اجراء اور پورے خطے میں سکلز ڈویلپمنٹ سنٹر بنانا ناگزیر ہیں تاکہ ہم مستقبل میں سعودی عرب سے ملنے والے مواقعوں سے فائد اٹھا سکیں امید کی جاتی ہے کہ جلد اس خطے میں خوشحالی آئے گی۔