نسل نو میں بڑھتی سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز کی لت
عقیل زین
بی ایس پاکستان سٹڈیز
کہتے ہیں انسان کو ہمیشہ فٹ اور توانا رہنے کے لیے اپنی روزمرہ کی عادات میں ورزش کو معمول بنانا چاہیے تاکہ انسان اپنی عمر کے جس حصہ میں بھی ہو ہمیشہ چست اور ہشاش بشاش رہے۔ کوئی شک نہیں کہ ورزش سے ہم اپنے جسم کو نا صرف بیدار رکھتے ہیں بلکہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہوئے بے شمار فوائد بھی حاصل کرتے ہیں ۔ ہم اکثر اپنے اساتذہ کرام اور بڑوں سے ایک یورپی ٹیچر کا ذکر سنتے آے ہیں جس کا نام مسٹر کنڈر گارٹن تھا وہ بارویں درجہ کا ایک ٹیچر تھا جو اپنی کلاس کے بچوں کو پڑھائی کے دوران سست روی کا شکار دیکھنے لگا اس نے غور کیا کہ کلاس کے بچے تھکاوٹ سستی کاہلی بےچینی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں تو اس ٹیچر نے اپنی کلاس کے بچوں کو جسمانی حرکات والی ورزشی گیمز کروانا شروع کر دیں۔ جس کے مثبت اثرات یہ مرتب ہوے کہ کلاس کے بچے چست اور ہوشیار رہنے لگے جس کی وجہ سے انکی پڑھائی کے معملات درست سمت چل پڑے۔ آج پوری دنیا کے اسکولز میں بچوں کو مسٹر کینڈر گارٹن کے نام سے منصوب کلاس KG سے ابتدا کروائی جاتی ہے جس کا مقصد بچوں کو مختلف گیمز اور ورزش سے فریش رکھتے ہوئے پڑھائی کی ابتدا کروائی جاتی ہے۔ مگر دور حاضر میں ہمارا معاشرہ برعکس سمت چل رہا ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کے بیشمار فوائد حاصل ہیں وہاں کچھ نقصان بھی موجود ہیں۔ دراصل یہ ھم خود پر منحصر ہے کہ ہم کسی چیز کا استمال کس صورت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی فون موبائل جس کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ انسان ہر مشکل کا حل بذریہ انٹرنیٹ اس موبائل میں تلاش کرتا ہے علاوہ ازیں دنیا بھر میں چند سیکنڈ میں جہاں چاہیں رابطہ قائم ہو جاتا ہے مگر آج دور حاضر میں نوجوان نسل میں موبائل فون پہ بے وجہ سوشل میڈیا کا کثرت استعمال اور آن لائن گیمز کھیلنے کا رجحان شروع ہو چکا ہے آج کل آن لائن گیمز کا کافی ٹرینڈ آیا ہوا ہے ہر جگہ بچے بڑے لڑکے لڑکیاں بلخسوس نوجوان نسل ہر وقت موبائل ہاتھ میں تھامے کثرت سے موبائل فون پر آن لائن کھیلتے نظر اتے ہیں اور اتنی گہرائی اور ذہنی طور پر اتنا مگن ہو کر کھیلتے ہیں کہ اتنا ہوش تک نہیں رہتا ساتھ کون بیٹھا ہے کون نہیں۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے کیا نہیں۔ کون آواز دے رہا ہے پروا نہیں ہوتی گزشتہ سال 2020 کرونا کی نظر رہا اسی دوران تمام اسکول کالج یونیورسٹی تمام تعلیمی ادارے بند رہنے کی صورت میں تمام طلبا و طلبات کو گھروں میں بیٹھ کر انٹرنیٹ آن لائن پڑھائی کرنا پڑی مگر اسی دوران آن لائن گیمز کا مزید استمال بڑھا۔ میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کروں تو آج کل میں جہاں کہی بھی چلا جاؤں ہر جگہ آن لائن گیم کا اشتیاق کے ساتھ ذکر ہوتا سنتا ہوں۔ تعجب خیز لمحہ فکریہ ہے کہ ان جیسی گیمز کی وجہ سے انسان ایک جگہ منجمند ہو کر رہ گیا ہے پہلے لوگ گراؤنڈ میں جا کر ورزش کرتے تھے کرکٹ ٹیم بنا کر روزانہ کی بنیاد پر گھنٹوں بھاگ دوڑ میں لگے رہتے تھے۔ نماز کی پابندی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ بچے اور نوجوان کھیل کود کے ذریعے طاقتور صحت مند اور مظبوط اعصاب کے ساتھ زندگی کو لطف اندوز گزارتے تھے مگر جب سے سوشل میڈیا کا استمال مقصد سے ہٹ کر اور آن لائن گیمز کا رواج و استعمال مخصوص دائرہ سے زیادہ بڑھا ہے تب سے ہی ہمارا سوشل سرکل ایک جگہ محدود ہو کر رہ گیا ہے آج کل نسل نو میں جسمانی ذہنی اور معاشرتی الجھنوں کا بڑھ جانا صاف واضح کرتا ہے کہ ہمارا جسم قدرتی تازہ حرکات سے ہٹ کر مصنوئی حرکات کی جانب راغب ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز کا مقصد سے ہٹ کر بے تحاشہ استمال کی وجہ سے تعلیم کو بہت نقصان پہنچا ہے میرے اندازہ کے مطابق نئی ابھرتی ہوئی نسل نو جن میں آن لائن گیمز اور سوشل میڈیا کا استمال بہت زیادہ ہے انکی کی کتابیں اور بیگ سال 2020 کے لاک ڈاؤن ہونے پر جسے بند ہوے تھے تقریباً ویسے ہی رکھے ہوئے ہوں گے۔ کیوں کہ ایسے بیشمار نوجوانوں کو میں بھی دیکھتا رہتا ہوں جو آن لائن گیمز میں اور سوشل میڈیا میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ رب کی پناہ۔ آج کل تو آن لائن گیمز میں صرف مارا ماری گولیاں بندوق ھی چلتی نظر آتی ہے جیسا کہ آج کل مشہور گیم کا بڑا ٹرینڈ بھی آیا ہوا ہے۔ بہرحال ہر دور کی طرح دور حاضر میں بھی ترقی کی سیڑھی صرف اچھی تعلیم و تربیت ہی ہے۔ ہم سب خوب جانتے ہیں کہ مجودہ دور میں بہت کمپیٹشن ہے ترقی کی منزل پر پہنچنے کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی ہے اسکے لیے تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ دیگر صلاحیتوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ممکن ہو سکے گا جب ہم خود مختاری و خود اعتمادی کے ساتھ شوق سے اگے بڑھنے کی جستجو اور لگن پیدا کریں گے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو پاۓ گا جب تک ہم خود اپنے اپ کو آگے نہیں بڑھایں گے۔ مجھے اس وقت آرٹیکل لکھتے ہوے بہت پرانا انگریزی کا اقوال یاد آ گیا جسے ضرور لکھنا چاہوں گا۔
Push yourself because no one else is going to do it for you.
ترجمہ۔ اپنے آپ کو خود آگے بڑھاؤ کیوں کے کوئی اور آپ کو آگے بڑھانے کیلئے نہیں آے گا۔ بلکل اسی طرح ہر انسان کو اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل کی طرف خود سٹرگل کرنی پڑتی ہے اس بات کا اندازہ اور اہمیت کا علم ان لوگوں کو زیادہ معلوم ہوتا ہے جو سخت محنت سے ایک کامیاب مقام کی چوٹی سر کر چکے ہوتے ہیں انکا ماضی دشوار گزار راستوں کی مانند ہوتا ہے۔ آخر میں ایک اصلاح کی طرف اتا ہوں۔ جاب ہمارا بچپن تھا تب موبائل فون عام نہیں تھے جس کی وجہ سے اس دور میں بچے اسکول کا کام وقت پر کر لیا کرتے تھے اور نماز کو پابندی کے ساتھ پورے محلہ کے بچے گراؤنڈ میں شام کو کھیلا کرتے تھے جس کی وجہ سے سب ذہنی۔ جسمانی اور تعلیمی معملات میں چست زیادہ تھے اب ہم سب بڑوں کو ایک عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل پر توجہ دیتے ہوے انکی تعلیمی۔ذہنی۔ جسمانی نشونما اور تربیت جسے تمام معملات میں انکی مدد کریں اور ہمیں اپنے چھوٹوں کی خوب خبر رکھنی چاہئے کہ وہ پڑھائی وقت پر کر رہے ہیں انھیں کسی قسم کا ذہنی تناؤ یا وہ الجھن کا شکار تو نہیں جس کی وجہ سے انکی ذہنی اور تعلیمی معملات خراب ہو رہے ہوں۔ لہذا ہمیں مثبت حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے گھر کے چھوٹوں سے دوستانہ ماحول پیدا کر کہ انکے ساتھ وقت گزارا کریں تاکے ہماری نئی ابھرتی ہوئی نسل نو اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات ہم سے بلا خوف و جھجھک شئیر کر سکیں اور ہم اپنے بچوں کو کامیابی کی طرف بڑھنے میں بھرپور مدد اور کردار ادا کر سکیں۔ بچے کو اسکی زندگی کے پہلے دس بارہ سال بھرپور وقت دیں تاکے اسکی روزمرہ کی روٹین ایسی پکی ہو جائے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھٹکے نا والدین کا دیا ہوا وقت انکے بچوں کیلئے قیمتی اور مفید ثابت ہوگا اور ہمارے معاشرے میں پرامن اور ترقی یافتہ نوجوان زیادہ ابھریں گے۔ میرے ہمساے بابا قمر دین سے اس آرٹیکل کے حوالے سے بات چیت ہوئی انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس سے میں بھی متفق ہوا انہوں نے کہا بچوں کو میٹرک کلاس تک سوشل میڈیا اور موبائل گیمز سے دور رکھنا چاہیے تاکہ اسکی تعلیمی بنیاد بہتر انداز میں ہو جائے اور اسے اگلی تعلیم میں مشکل پیش نہ آئے۔