منصفانہ ترسیل
نافعہ نازی
ایم ایس کیمسٹری
اس دنیا میں ایک عام تصور رائج ہے کہ محرومی اور ناکامی کو ایک دوسرے سے جوڑا جاتا ہے - اور اس تصور پر ایمان لاتے ہوئے ہم یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ اس دنیا میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی لحاظ سے محروم ہوتا ہے - بظاہر بہت زیادہ کامیاب نظر آنے والا انسان بھی اپنی زندگی کی کسی نہ کسی کمی پر کڑھتا ضرور ہے - جب ہر شخص اپنے اپنےلاحاصل کا اسیر ہے تو ناکامی اور کامیابی کو ماپنے کے لئے محرومی کا پیمانہ استعمال نہیں کیا جاسکتا-
لیکن موجودہ صورت حال میں ہم دیکھتے ہیں کہ اِس پیمانے نے انسانوں کو مختلف طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے - اور اس کے نتائج بالکل بھی انسان دوست نہیں ہیں - اِس تصورِ تقسیم سے وہ نظام وجود میں آیا ہے جس نے انسانوں کے حقوق و فرائض کی وہ منصفانہ ترسیل جو خدا تعالیٰ نے خود فرمائی، کو یکسر الٹ کر رکھ دیا ہے - وہ ترسیل انسانوں کی سہولت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی مگر انسانوں ہی کے اس خودساختہ نظام نے ہر شخص کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے - اس کا ایک نقصان تو یہ ہوا ہے کہ کسی کو اُس کے حق سے اتنے زیادہ فائدے ملے کہ وہ شخص زندگی کی اصلیت کو ہی بھول گیا اور کسی کی ساری عمر اُن نقصانات کا ازالہ کرتے گزر گئی جن کے پیش آنے میں اُس کا اپنا ہاتھ نہ تھا - یہ کھوکھلا نظام صرف اُس انسان کو کامیاب سمجھتا ہے جس کے پاس دنیاوی آسائشوں کی فراوانی ہو - اور اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ معاشرہ بہت سی نیکیوں کا حق بھی ان ہی لوگوں کو دیتا ہے جو بظاہر کامیاب نظر آتے ہوں - مثلاً ہمارے نزدیک سخاوت کرنے والا صرف ایک امیر شخص ہی ہو سکتا ہے - ہم سمجھتے ہیں کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ کسی ایسے شخص کا ہی ہو سکتا ہے - اور اسی طرح کی دیگر اچھائیوں کی توقع ہم ان امیر زادوں سے کر رہے ہوتے ہیں جو شاید کبھی بھی ان اوصاف کے اہل نہ ہوسکتے ہوں - دوسری طرف وہ انسان جو معاشی بدحالی سے دوچار ہو، اِس نظام کے تحت نہ صرف غریب کہلاتا ہے بلکہ اُس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دستِ سوال دراز کرنے والا ہی بنے - ہم ترس اور ہمدردی کی آڑ میں اُس کو ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں وہ ایک مظلوم ہی کی حیثیت سے رہنے کا عادی ہو جاتا ہے - اُس کے اعتماد اور خودداری کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں - وہ خود سے مایوس بعد میں ہوتا ہے، اُس کو مایوسی کے اسباب پہلے فراہم کیے جاتے ہیں - نتیجتاً اُس کے دل سے یہ احساس معدوم ہوجاتا ہے کہ اپنےحالات کو بہتر کرنے کا اصل ذمہ دار وہ خود ہے نہ کہ دوسروں کی ہمدردیاں-
ایک اور طبقہ ہے جس میں کامیابی کا معیار مذہبی لحاظ سے پارسا نظر آنا ہے - یہاں جو جتنا زیادہ انتہا پسند ہے اُتنا زیادہ کامیاب گردانا جاتا ہے - اِس طبقے میں بھی دیگر نیکیوں کا حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہے جو عبادت گزار ہوں اور جن کا حلیہ دین کے بتائے گئے اصولوں کے عین مطابق ہو - ہاں مگر ان انتہا پسندوں کو چھوٹی سی بھی غلطی یا کوتاہی کا حق بالکل نہیں دیا جاتا، الغرض ان کو انسان ہونے کا بھی حق میسر نہیں - اوردوسری طرف ہر وہ شخص جس کا گناہ ظاہر ہو جائے یا جو ظاہراً دین کے اصولوں کو پورا کرتا ہوا نظر نہ آئے یا جو دین کے ٹھیکیداروں کے سامنے اپنی زبان سینے سے گریزاں ہو، وہ ناکام ترین انسان گردانا جاتا ہے - اُس سے اِس دنیا میں نیکی اور آنے والی دنیا میں جنت کی خوشبو سونگھنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے-
ایک طبقہ ایسا بھی ہے جہاں دکھاوے کی ہمدردیوں اور مصنوعی میٹھے بولوں کا دور دورہ ہے - یہاں محبت کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر محبت نہیں کی جاتی اور ایسے ہی لوگ یہاں پر کامیاب شمار کیے جاتے ہیں - یہاں سچ پر مبنی کڑوی باتیں کہنے والے اقلیت میں پائے جاتے ہیں - ہر وہ شخص جو اندر اور باہر سے ایک جیسا ہو، جو محبت اور نفرت میں کھرا ہو اور خوامخواہ کے دعوے کرنے والا نہ ہو، ایک ناکام انسان کہلایا جاتا ہے - اُس کے ساتھ کوئی چلنے کو تیار نہیں ہوتا - اُس کی زندگی بہت سے رنگوں سے خالی ہوتی ہے - اور وہ تنہا کردیا جاتا ہے-
تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے ہم ٹھہر کر یہ نہیں سوچتے کہ خداوند تعالیٰ منصف ہے اور اُس نے غم اور محرومی کی ترسیل میں بھی بڑے انصاف سے کام لیا ہے - ایک بھوکے پیٹ فٹ پاتھ پر سونے والا انسان اگر حالات کی سختی سے دوچار ہے تو کسی محل میں نرم گرم بستر پر سونے والا شخص شاید کبھی چین کی نیند حاصل کر ہی نہ سکا ہو - مایوسی اور محرومی اُس کو بھی اتنے ہی زور سے چبھتی ہے جتنی زور کی بھوک اُس فٹ پاتھ کے رہائشی کو لگتی ہے - غم کی مقدار ہر ایک کے لئے برابر ہوتی ہے مگر اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے- ہر کوئی یہاں ان دیکھے خوف و خدشات سے دوچار ہے - کسی کا حق مار کر ہم اپنے لاحاصل کو کبھی بھی نہیں پاسکتے - انسان جتنے مرضی حیلے دکھائے مگر خدا اس کو اس کے حصے کے دکھ سکھ ہی دیتا ہے - جب سب کے لئے حالات کی سنگینی ایک جیسی ہے تو ان حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوشش بھی ہر ایک کو کرنی پڑتی ہے-
ایکدوسرے پر انحصار کرنا یا ایکدوسرے کا حق چھیننا ہمارے مسائل کا حل نہیں ہو سکتا - اِن اقدام سے ترازو کا ایک پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے اور دوسرا ہوا میں معلق - ہمیں معاشرے میں توازن لانے کے لئے کوشاں رہنا چاہئیے اور اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں خود کو مظلوم اور ظالم کے تصور سے آزاد کرنا ہوگا - ہمیں اپنا ذمہ دار خود بننا ہوگا - یہ ایمان پختہ کرنا ہوگا کہ زندگی ایک کڑی مسافت کا نام ہے جس میں خیر اور شر ایک تناسب سے ہمارے حصے میں آتا ہے - ہم ایک کو زیادہ اور دوسرے کو کم نہیں کرسکتے - ہماری اصل ذمہ داری ہر طرح کے حالات میں مثبت سوچ اور رویے کو اپنانا ہے تاکہ ہمارے قدم نہ ڈگمگائیں - اِس سوچ کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ اس کائنات میں انسان کا سب سے بڑا اثاثہ "کوشش" ہے جو وہ اپنے ظاہری اور باطنی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کرتا ہے - اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بحیثیت انسان اپنی انسانیت سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئیے - ایکدوسرے کے ساتھ مہربانی کو ترک نہیں کرنا چاہئیے - ایکدوسر کا حوصلہ بن کر ہی اِس تھکا دینے والے سفر کو خوشگوار طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے - یہ لازم نہیں کہ ہم کسی کو اپنی پیٹھ پر سوار کر لیں اس غرض سے کہ کل کو ہم اس پر سوار ہو جائیں، بلکہ ہمیں مسافتِ فانی کو شانہ بشانہ طے کرنا ہوگا - تعلقات کو غرض کی بھینٹ چڑھانا ہی اصل بے وفائی ہے جو جلد ہی ان کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے- غیر مشروط تعلقات میں پائیداری ہوتی ہے کیونکہ ان میں کوئی بھی اپنی کوشش اور ذمہ داری سے منہ نہیں موڑتا - خلوص کامیابی کا ضامن ہے - انسان اپنے آپ سے اور اپنے ساتھی انسانوں سے مخلص ہو کر ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے-