تحریک پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی کا کردار
محمد انور فاروق
ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز
زندگی کی شاہراہ پر بے شمار موڑ آتے ہیں مگر موڑ پر کھڑے رہنا عقلمندی نہیں ہوتی کیونکہ موڑ پر نہ توآگے کا کوئی منظر نظر آتا ہے اور نہ ہی پیچھے کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ موڑ مڑ جانا ہی دانائی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے امید کے قمقموں سے روشن بنگلے نظر آتے ہیں اوراچھے مستقبل کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔کسی فرد کی زندگی میں امید کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ امید کے بغیر زندگی کی کٹھنائیوں سے نبرد آزما ہونا ممکن نہیں ۔ یہ تو ایک فرد کی زندگی کی بات تھی ۔ افراد سے ہی قوم بنتی ہے اور جب کو ئی قوم تاریخ کے کسی موڑ پر پہنچ جاتی ہے تو پھر مستقبل کا تعین اور بھی کٹھن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کم ہمت لوگ موڑ کو زندگی مان لیتے ہیں اور وہیں رہنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ کچھ واپس لوٹنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور ماضی میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ باہمت موڑ مڑ کر مستقبل کی خبر لانا چاہتے ہیں ۔ اکثر یہ ظلم ہوتا ہے کہ مستقبل کی طرف راستہ بنانے والوں کو معطون ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پوری قوم انتشار کا شکار ہو جاتی ہے ۔ ہر کوئی اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لئے نئے دلائل گھڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ شور بڑھ جاتا ہے اور فکری انتشار کابھی آغاز ہو جاتا ہے۔ پوری قوم تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے ۔اصل اصلاح کار وہ ہوتا ہے جو قوم کو مستقبل کی راہ دکھائے ، انہیں فکری انتشار سے نکالے اور سب کی سوچ کو ہم آہنگ کردے۔
تقسیم سے پہلے برصغیر میں مسلمانوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ایک طرف مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور دوسری طرف دیوبند کے جید علمائے کرام۔ایک ہندوستان کی تقسیم کے حق میں اور دوسرا اس کے خلاف۔ مسلمان تذبذب کا شکار تھے اور کوئی واضح فیصلہ ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ایسے میں ایک مرد مومن تاریخ کے آسمان پر ایک ستارے کی طرح چمکا جس نے مذہبی روایت میں رہتے ہوئے مستقبل کے لئے دلائل دئیے اور پاکستان بنانے کے لئے راہ ہموار کی۔یہ وہ ہی شخصیت ہے جس نے جمعیت علمائے اسلام کو نظریاتی بنیاد فراہم کی۔جس نے نہ صرف ہندوستان کے طول و عرض کے دورےکئے اور ۱۹۴۵-۴۶میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا بلکہ پاکستان بننے کے بعد اسلامی آئین کے لئےبھی جدوجہد کی۔اسی جدوجہد کی وجہ سے پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد شامل ہوئی۔ وہ عظیم ہستی مولانا شبیر احمد عثمانی ہیں۔آپ برصغیر کے بے نظیر عا لم دین اور نامور محقق تھے۔ محدث، مفسر اورمفکر ہونے کے ساتھ ساتھ علم فلسفہ پر بھی آپ کی نگاہ بہت ہی دور رس تھی۔ آپ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے خلیفہ بھی تھے۔آپ بہت شاندار مصنف اور مدبر سیا ستدان تھے۔آپ کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ آپ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔
آپ گیارہ اکتوبر ۱۸۸۷ میں بجنور میں پیدا ہوئے اور بہن بھائیوں میں آپ کا گیارہواں نمبر تھا۔ آپ کے والد کا نام مولانا فضل الرحمان عثمانی تھا جو کہ صوبائی محکمہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر سکولز تھے۔سید محبوب رضوی نے اپنی کتاب تاریخ دیوبند میں ذکر کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان عثمانی مولانا نانوتوی کے قریبی رفیق اور دارلعلوم دیو بندکے بانیوں میں سے تھے اور اپنی وفات تک دارلعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔مولانا شبیر احمد عثمانی کے بڑے بھائی حبیب الرحمان دارلعلوم دیوبند کے مہتمم اعلی رہے ۔ دوسرے بھائی عزیز الرحمان دارلعلوم میں مفتی اعظم اور دارلافتاء کے سربراہ رہے جنھوں نے تقریبا دس سال اسی عہدے پر کام کیا۔
مولاناشبیر احمد عثمانی نے دارلعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی جہاں آپ کو شیخ الہند مولانامحمودالحسن، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا برکت اللہ بھوپالی جیسے جلیل القدر اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔دارلعلوم دیوبند سے ۱۹۰۷ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعدآپ مدرسہ مسجد فتح پوری دہلی میں ہیڈ ٹیچر مقرر ہوئے۔۱۹۱۰ میں آپ دیوبند واپس آ گئے ۔دیوبندمیں آپ نے حدیث صحیح مسلم پڑھائی اور اپنے غیر معمو لی لیکچرز کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ آپ نے صحیح مسلم میں شامل احادیث کی تشریح حنفی نقطہ نظر کے تحت کی جس کی تین جلدوں میں طباعت کا اہتمام گورنمنٹ آف نظام حیدرآباد نے کیا۔آپ نے بلکان جنگ کے دوران ترک گورنمنٹ کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آپ نے تحریک خلافت کے دوران جمعیت علمائے ہند کی نمائندگی بھی کی ۔اپنے استاد مولانا محمود الحسن کی وفات کے بعدآپ نے قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پران کا ادھورا رہ گیا کام مکمل کیا جو بعد میں تفسیر عثمانی کے نا م سے شائع ہوا۔آپ نے دیو بند کی انتظامیہ سے اختلافات کی بنیاد پر ۱۹۲۸ میں دیو بند کو چھوڑ دیااور مدرسہ دبہیل میں بطور مدرس اعلی شمولیت اختیار کی۔۱۹۳۲ میں آپ نے مولانا اشرف علی تھانوی کی درخواست پر دوبارہ دیوبند میں شمولیت اختیار کی جہاں آپ کودارلعلوم کی مجلس شوری نے نائب مہتمم اعلی کا عہدہ دیا۔آپ نے قرارداد پاکستان کے فورا بعد آل انڈیا مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح اور جمعیت علمائے ہندکے اکابرین کی ملاقاتیں کروائیں جو کہ اختلافات کی خلیج کو پاٹنے میں سود مند ثابت نہ ہو سکیں۔مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے رفقاء کی کانگرس کی اعلانیہ حمایت کرنے پر آپ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئےاورآپ نے اس حوالے سےاحتجاجی رویہ اختیار کیا۔۱۹۴۳ میں آپ نے دوبارہ دیوبند اختلافات کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ آپ ۱۹۴۵ میں جمعیت علمائے ہند کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے اور جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے آپ نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی کھل کر حمایت کی۔ آپ نے ۱۹۴۵-۱۹۴۶ میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ہندوستان کے طول و عرض کے دورے کئے اور لوگوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آنے کی دعوت دی۔ اپنی تقاریر میں آپ نے پاکستان کے قیام کی کھل کر حمایت کی اور لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ ہی وہ واحدسیاسی جماعت ہے جوان حالات میں مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھا سکتی ہے۔آپ نے ۱۹۴۴ میں مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔ ۱۹۴۵میں آپ کو میرٹھ میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لئےمنتخب کیا گیا۔اس کے بعد آپ کو مسلم لیگ کونسل اور ورکنگ کمیٹی کی ہر میٹنگ میں مدعو کیا جانے لگا۔
۱۹۴۵ میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے الیکشن کے موقع پر کی گئی اپنی ہر تقریر میں پاکستان کے حوالے سے بات کی۔ ایک طرف روایت پسند علمائے کرام اور دوسری طرف مسلم لیگ کے جدید تعلیم یافتہ سیاستدان۔۔۔آپ کی تقاریر نے مسلم لیگ کے لئے علمائے کرام کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔آپ نے اپنی تقاریر میں پاکستان کو ایک ایسی جدید ریاست کے طور پر پیش کیا جس کا آئین قران اور شریعت کے تابع ہو گا۔آپ نے تصور پاکستان کو ہندوستان کے مسلمانوں میں قبول عام بنانے کے لئے مذہبی دلائل کی مضبوط بنیاد فراہم کی ۔الیکشن میں آپ کے دلائل نے خاص طور پر یوپی کے مسلمان وٹر ز کو متحرک کردیا جس کا نتیجہ مسلم لیگ کی برتری کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اگرتحریک پاکستان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ زیادہ تر علمائے کرام ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے ۔ علمائے کرام اور انڈین نیشنل کانگرس میں یہی بات مشترک تھی۔علمائے دیو بند نے " متحدہ قومیت " کا تصور متعارف کروایا۔ جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی "متحدہ قومیت" کے تصور کے خالق اور بہت بڑے حامی تھے۔ اس دور میں ان کی ایک تحریر "متحدہ قومیت اور اسلام" بہت زیادہ مشہور ہوئی جس میں انہوں نے سیکولر طرز حکومت پر زور دیا اور ایک ایسی گورنمنٹ کا خیال پیش کیاجو کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو، جو بلاتفریق مذہب ، رنگ و نسل سب کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرےاور اس ضمن میں انہوں نے دلیل کے طور پر میثاق مدینہ کی مثال پیش کی جو کہ مدینہ کے مسلمانوں اور دوسرے غیر مسلم قبائل کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔مولانا حسین احمد مدنی کی متحدہ ہندوستان کی حمایت دراصل ان کے بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف دیوبند سے تعلق رکھنے والے ایسے علمائے کرام بھی موجود تھے جو ہندوستان کی تقسیم کے حامی تھے اور مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبے کو سپورٹ کرتے تھے ۔علمائے کرام کا یہ گروپ ۱۹۴۵ میں الیکشن کے موقع پر جمعیت علمائے ہندسے باقاعدہ طور پر الگ ہو گیا اور مسلم لیگ کے پروگرام کو سپورٹ کرنے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کی داغ بیل ڈال دی۔ جمعیت علمائے اسلام نے نہ صرف "متحدہ قومیت" کے تصور کی مخالفت کی بلکہ مسلم لیگ کو اسلامی ریاست پاکستان کے مطالبے کے لئے مذہبی دلائل بھی فراہم کئے۔ جمعیت علمائےاسلام اور مسلم لیگ کا اتحاد مسلم لیگ میں مذہبی رجحانات کے فروغ کا باعث بنا اور مسلم لیگ کی قیادت نے بھی پاکستان کے حوالے سے دئیے گئے مذہبی دلائل کو اپنی الیکشن مہم میں خصوصی اہمیت دی جس کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی رائے پاکستان کے حق میں ہموار ہو گئی۔
جب وائسرائے ہندوستان نے ۱۹۴۵ میں الیکشن کا اعلان کیا تو یو پی سے چوبیس علمائے کرام نے انتخابی مہم میں ساتھ دینے کے لئے مسلم لیگ سے رابطہ کیا۔ مسلم لیگ کے مشورے سے چوبیس علمائے کرام پر مشتمل پانچ کمیٹیاں قائم کر دی گئیں جنہوں نےمختلف علاقوں میں مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔مسلم لیگ کی ہدایت پر ان علمائے کرام نے مسلمانوں کو باور کروانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا محفوظ مستقبل صرف پاکستان کی صورت ہی ممکن ہے۔جلد ہی اس مہم نے مقبولیت حاصل کر لی اور دوسرے علاقوں سے بھی علمائے کرام اس کار خیر میں شامل ہو گئے۔ یوپی سے شامل ہونے والے علمائے کرام نےاپنی الگ شناخت اور مسلم لیگ کی سپورٹ کے لئے علمائے کرام کی ایک ملک گیر تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر ۱۹۴۵ میں کلکتہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت مولاناشبیر احمد عثمانی نے کی۔اس کانفرنس میں ملک بھر سے پانچ ہزار علمائے کرام نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ علمائے کرام گاندھی ازم، کمیونزم، سیکولرزم کے خلاف ہیں اور ساتھ ہی مسلم لیگ کو سپورٹ کرنے کا عزم کیا گیا۔ علمائے کرام نے محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی اعتماد کا اظہار کیا۔مسلم لیگ نے اس کانفرنس میں نواب اسماعیل خان کو اپنی نمائندگی کے لئے بھیجا جنھوں نے یقین دلایا کہ مسلم لیگ مذہبی اور شرعی معاملات میں علمائے کرام سے رہنمائی لے گی۔ جمعیت علمائے اسلام کے قیام کا مقصد مسلمانوں کوزندگی کے ہر میدان میں شریعت کے مطابق راہنمائی فراہم کرنا تھا۔ اس لئے اس کی تنظیم سازی کی گئی اور دوسرے علاقوں میں بھی اس کے دفاتر بنا دئے گئے جو کہ کلکتہ ہیڈ کوارٹر کے ماتحت کام کرتے تھے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کر تے جس کا مقصد اس آئیڈیل کے حصول کی کوشش تھا جو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھا۔مسلمانوں کی رائے پاکستان کے حق میں ہموار کرنے کے لئے آپ اکثر اپنی تقاریر میں پاکستان کی جگہ مدینہ اور مدینہ کی جگہ پاکستان کا لفظ استعمال کرتے تھے ۔آپ نے پاکستان کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے بہت شاندار استعارے استعمال کیے جن کے ذریعے آپ نے مدینہ اور پاکستان میں بے شمار مشترک باتیں بیان کیں۔ آپ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں پاکستان بنانے کے بجائے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوردنیا میں پہلا پاکستان بن گیا کیونکہ پاکستان ایسی جگہ ہی بن سکتا ہے جہاں مسلمانوں پر کوئی جبر نہ ہو اور وہ پوری آزادی کے ساتھ اسلام کے مطابق زندگی گزاریں۔ مسلمانوں کو ایسی آزادی مکہ میں حاصل نہ تھی اس لئے ہجرت کرنا پڑی۔اسی طرح ایک اسلامی ریاست کا متحدہ ہندوستان میں بننا ممکن نہیں کیونکہ اگر انگریز چلے بھی جائیں تو وفاق میں ہندو عددی اکثریت میں ہوں گیں۔ اس لئے ہندستان کی تقسیم ضروری ہے ۔پاکستان کا بننا مدینہ جیسا اسلامی بھائی چارہ قائم کرنے کی طرف پہلا قدم ہو گا جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔ جس طرح مدینہ سے پورے عرب میں اسلام پھیلا اسی طرح سےپاکستان پورے برصغیر پر اسلامی حکومت کی راہ ہموار کرے گا۔پاکستان ایک ایسا طاقتور مدینہ بنے کا جو مسلمانوں کی روحانی اور مادی ترقی کا ضامن ہوگا۔لاہور میں ایک تقریر کے دوران آپ نے کہا کہ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں سے شیخ احمد سرہندی نے شہنشاہ اکبر کے تصور" متحدہ قومیت "اور "دین الہی" کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا اور ویسا ہی جہاد مسلم لیگ نے یہاں سے ۱۹۴۰ میں قرارداد پاکستان منظور کر کے شروع کیا۔آپ نے اپنی بصیرت اورفصاحت و بلاغت کے ذریعےپاکستان کے تصور کومذہبی بنیاد فراہم کی۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو بڑی تعداد میں مسلمانوں کی حمایت حاصل ہونے سے وہ صحیح معنوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی۔برصغیرکے سیا سی منظر نامے میں دو قومی نظریہ بہت زیادہ اہمیت کا حا مل ہے اور یہ ہی نظریہ قیام پاکستان کی وجہ بنا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے قرآنی حوالاجات کے ذریعے دو قومی نظریہ کے حق میں دلائل دئیے جس سے مسلم لیگ کے پاکستان کے لئے مطالبے کو عوامی حمایت حاصل ہو گئی۔آپ نے بیان کیا کہ موجودہ دنیا کی درجہ بندی وطن ، نسل، زبان اورتمدن کی بنیاد پر تھی اورنبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےظہور کے بعد دنیا میں درجہ بندی کا پیمانہ صرف اور صرف ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر ہی بن سکتا ہے۔ ایمان اورکفر کا تصور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجےتھے مگر آپ کی نبوت کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے وہ تمام درجہ بندیاں جو ملک ،خاندان، زبان اور مکان کی بنیاد پر تھیں ختم کر دیں کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کوتمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔آپ نے مسلمانوں کو ایک جسد واحد میں تبدیل کر دیا۔پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں اور ہندوستان کے مسلمان بھی اس عالمگیر تصور یعنی مسلم امت کا حصہ ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمان ہندووں کے لحاظ سے جداگانہ قومیت رکھتے ہیں ۔ اس لئے ہندوستان میں" متحدہ قومیت" کا تصور باطل ہے اور آپ نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔مولانا حسین احمد مدنی نے "متحدہ قومیت" کے تصور کی وضاحت میں جب میثاق مدینہ کا حوالہ دلیل کے طور پر استعمال کیا تو آپ نے ان کی اس وضاحت کو دلائل سے رد کر دیا۔آپ کے مطابق میثاق مدینہ میں کہیں بھی مسلمانوں اور یہودیوں کے لئے"قوم واحدہ" کا لفظ استعمال نہیں ہوااور یہ طے ہوا تھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی تنازعہ کی صورت میں فیصلہ اللہ کے احکامات کے مطابق ہو گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ فرما دیں گیں وہ یہودیوں کو قبول کرنا ہو گا۔تو کیا ہندوستان کےمسلمانوں کو" متحدہ قومیت " کا تصور مان لینا چاہیے ؟اگر میثاق مدینہ کو حوالہ بنایا جائے تو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تنازعات کو حل کر نے لئے فیصلے قرآن کے مطابق ہونے چاہیں۔کیا موجودہ صورتحال میں یہ ممکن ہے؟کیا اس صورت میں" متحدہ قومیت" کا وجود ممکن ہو سکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے کہا کہ مسلمانوں کے پاس اب صرف دو ہی راستے ہیں ایک حق کا اور دوسرا کفر کا۔ جمعیت علمائےاسلام حق کی جبکہ کانگرس اور اس کے حمایتی کفر کے علمبردار ہیں۔آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ" متحدہ قومیت" کے تصور کا سب سے زیادہ فائدہ ہندووں کی نمائندہ جماعت کانگرس کو ہو گا اور یہ ہندووں کو انگریز کے بعد اقتدار میں لانے کی ایک سازش ہے ۔ مسلمانوں کو اس قسم کے باطل تصورات سے بچنا چاہیئے۔
آپ نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ ہر قوم کو ایک مستقل مرکز کی ضرورت ہوتی ہے اور مسلمان قوم کا یہ مرکز وہیں قائم ہوگا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں تاکہ وہ آزادانہ طریقے سے اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزار سکیں۔ اسلامی ریاست یا دارالاسلام سے مراد ایک ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور اس کا آئین اسلامی ہو۔اگر کوئی ریاست یہ شرائط پوری نہ کرے تو وہ دارلاسلام نہیں بلکہ دارالحرب کہلائے گی۔ آپ نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے اپنا ایک منفرد نظریہ پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ بیک جنبش قلم ایک فلاحی اسلامی ریاست قائم ہو جائے ۔ فلاحی اسلامی ریاست وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج بنتی ہے اس کے لئے کافی وقت چاہیے۔ پاکستان ایک پائیدار فلاحی اسلامی ریاست کی طرف پہلا قدم ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان ایک فلاحی اسلامی ریاست بن جائے گا۔پاکستان کا بتدریج اسلامی ریاست بننا ایک ایسی وضاحت تھی جو اس وقت مسلم لیگ میں موجو د ماڈرن طبقے کو بھی قابل قبول تھی کیونکہ اس ماڈل میں ریاست کے تمام امور کو طے کرنے کے حولے سے بحث کی گنجائش موجود تھی اور دوسری طرف مولانا شبیر احمد عثمانی کو یہ امید تھی کہ علمائے کرام اس بحث میں بھر پور طریقے سے شامل ہوں گیں اور نئی ریاست کا آئین اسلام کے مطابق بنانے میں اپنا کردار ا ادا کریں گیں۔ آپ لوگوں کو یہ یقین دلاتے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا۔ پاکستان ایک ایسی ریاست بنے گاجہاں انصاف، امن، اور رواداری کے اعلی اصولوں کو عملی طور پر نافذ کیا جائے گا۔ریاست کی نظر میں سب برابر ہوں گے اور سب کو زندگی میں آگے بڑھنے کے برابر مواقع دستیاب ہوں گیں۔
جب ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی درخواست پر آپ اپنے خاندان سمیت پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں رہائش پذیر ہو گئے۔قا ئد اعظم آپ کی قیام پاکستان کے لئے خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور مولانا کا بے حد احترام کرتے تھے۔پاکستانی پرچم کی پہلی پرچم کشائی کے لئے قائداعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا ۔آپ بھی قائد اعظم سے بہت محبت رکھتے تھے اور بارہا اپنی تقاریر میں آپ نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں محمد علی جناح ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو سیاست کے میدان میں انگریز اور کانگرس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جب جمعیت علمائے ہند کی طرف سے مسلم لیگ کی قیادت یعنی قائداعظم محمد علی جنا ح پر سخت اعتراضات ہوئے تو آپ نے تمام اعتراضات کے مدلل جوابات دئیے۔ جب قائداعظم کی وفات ہوئی تو ان کی وصیت کے مطابق ان کا نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔نماز جنازہ کے بعد آپ نے فرما یا قائداعظم نے مجھ سے کہا تھا " پاکستان مسلمانوں کے لئے بنایا جا رہا ہےاور پاکستان میں اسلامی نظام ہی نافذ ہو گا"۔
آپ کا انتقال ۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ میں بغدادالجدید بہاولپور میں ہوا ۔ آپ کی آخری آرام گاہ اسلامیہ کالج کراچی میں ہے۔آپ کی شخصیت زہد و تقوی ، علمی فضیلت اور سیاسی بصیرت کا اجتماع تھی وہ علوم دینیہ اور قانون شریعہ کے معتبر عالم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں جدید رجحانات کا بدرجہ اتم احساس تھا۔ وہ اپنے وقت کے واحد عالم تھے جو موجودہ زمانے کے تقاضوں اور الجھنوں کا اسلامی افکار کی روشنی میں حل بتا سکتے تھے۔ انہوں نے اسلامیان ہند کی جس انداز میں قیادت و رہنمائی کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں تاریخ ایک ایسی لہر کی طرح ہے جو ماضی کی طرف سے آتی ہے ، زمانہ حال سے ہوتے ہوئے زمانہ مستقبل کی طرف جاتی ہے اور مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔کسی قوم کی تاریخ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس کا حافظہ ۔ جو قوم اپنی تا ریخ بھلا دیتی ہے اس کا حال ایک ایسے شخص کی طرح ہوتا ہے جسے کچھ یاد نہ ہو کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟جہاں حافظہ نہ ہو وہاں دانائی کا کیا کام۔قوم کی تاریخ میں واقعات کے ساتھ ساتھ ان شخصیات کا ذکر بھی ہوتا ہے جنھوں نے اپنی بصیرت اور قوت فیصلہ کوبروے کار لا کر قوم کو مصیبتوں اور کٹھنائیوں کے اندھیروں سے نکال کر روشن مستقبل میں لا کھڑا کیا ہو۔جس طرح آسمان پر روشن رہنے والے ستاروں کو دیکھ کر انسان اپنے سفر کی سمت کا تعین کرتا ہے اسی طرح کوئی قوم ان ہی شخصیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔ پاکستان کی تا ریخ کے افق پر چمکنے والے ستاروں میں ایک ایسا ہی ستارہ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی ہیں۔
کتابیات
- Haqqani, Maulana Abdul Qayum. Tazkarah-o-Sawaneh: Allama Shabbir Ahmad Usmani. Naushehrah: Jamia Abu Hurairah.
- Kazmi, M. Raza. (2009). A Concise History of Pakistan. Karachi: Oxford University Press.
- Madani, Syed Hussain Ahmad. (2005). Composite Nationalism and Islam. Manohar Publishers and Distributors.
- Dhulipala, V. (2015). Creating a New Medina: State Power, Islam and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India. India: Cambridge University Press.
- Ikram, S.M. (1992). Indian Muslims and Partition of India. India: Atlantic Publishers
- Ikram, S.M. (1992). Modern Muslim India and the Birth of Pakistan. Kazi Publications
- Mehboob, Syed. Tareekh: Dar-ul-Uloom Deoban. Lahore: Al-Meezan Nashran-o-Tajiran-e-Kutab.