کتاب دوستی اور نظام ِتعلیم

کتاب دوستی اور نظام ِتعلیم

قاسم علی شاہ

کتاب ایک ایس دوست ہے جو بندے کی نہ تو خوش آمدانہ تعریف کرتا ہے اور نہ ہی اس کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو کبھی نقصان نہیں پہنچاتا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے ناجائز فائدہ اْٹھانے نہیں دیتا۔جس طرح لباس انسان کے ظاہر کو خوبصورت بناتا ہے اسی طرح کتاب انسان کے باطن کو خوبصورت بناتی ہے۔ باطن میں خوبصورتی حُسنِ خیال سے پیدا ہوتی ہے اورکتاب حُسنِ خیال پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

qas

کتاب پڑھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنی خوراک اورآکسیجن ،جس طرح ایک استاد زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسی طرح کتاب بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ جس طرح ایک اچھا دوست پے بیک کرتا ہے اسی طرح کتاب بھی پے بیک کرتی ہے۔ غیر نصابی کتابیں ’’قوم سازی‘‘ کے لیے بہت ضروری ہوتی ہیں۔ دانشور ،شاعر ،ادیب اور فنونِ لطیفہ کے لوگ معاشرے کی آکسیجن ہوتے ہیں۔ مستقبل سازی کے تعین میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جینا اہم نہیں ہے بلکہ دلوں میں زندہ رہنا اہم ہے اور دلوں میں تب ہی زندہ رہا جاتاہے جب وزڈم (wisdom) ہو اور وزڈم کا ایک حصہ کتاب سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک جگہ والٹیر کہتا ہے دنیاپر انسانوں کی نسبت کتابوں نے زیادہ حکومت کی ہے اور تاریخ کے بڑے نام کتاب کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔

کتاب زندگی میں دوطرح سے لائی جا سکتی ہے پہلا علم کی طلب اور دوسرا کسی کے مشورے سے۔ جب کوئی معروف شخصیت کسی کتاب کو متعارف کراتی ہے تو وہ کتاب زیادہ پڑھی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے کالم نویس ایسے ہیں جو اچھی کتابیں متعارف کراتے ہیں ،انہی میں سے ایک جاوید چودھری صاحب ہیں جو اپنے کالموں کے ذریعے کتاب کے کلچر کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے جبکہ دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کتاب پڑھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اگر ’’سیلف ہیلپ‘‘ کے موضوع کو ہی لیا جائے تو اس موضوع پر وہاں انڈسٹری وجود میں آچکی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس موضوع کو فالو کرتی ہے۔ اس موضوع کی وجہ سے ان کے معاشرے میں مثبت اپروچ پیدا ہو رہی ہے۔جب رائے عامہ پیدا کرنے اور بنانے والے کتاب کو متعارف کرواتے ہیں تو معاشرے میں کتاب پڑھنے کا کلچر پیدا ہوتاہے۔

کتاب کے مطالعے کے دوران اہم مسئلہ اس کے اہم نکات کو یاد رکھنا ہے۔ کتاب یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کتاب کو اپنی زندگی کے کسی حوالے سے ملا لیا جائے۔ جب کتاب زندگی کے کسی حوالے سے مل جائے تو پھر اس کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لوگ کتا ب تو پڑھتے ہیں لیکن اس کو اپنی زندگی سے ملانہیں پاتے ۔ کتاب کو یاد رکھنے کے لیے ایک ڈائری بنائیں۔ جو اچھی اور کام کی بات ملے اس کو ڈائری میں لکھ لیں۔ جس نے لیکچر تیار کرنا ہے اسے چاہیے جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتا جائے ساتھ ساتھ اپنے نوٹس بناتا جائے۔ جس کا مقصد صرف کتاب کا مطالعہ ہو اور وہ کتاب یاد کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے وہ دیکھے کہ اس نے کتاب سے کیا سیکھنا ہے۔ اس کے لاشعور میں کون کون سے سوال ہیں جن کے جواب کی ضرورت ہے۔ جب تک جستجو نہ ہو ، سوال نہ ہو تب تک دنیا کی بہتر ین کتاب بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔

جو دانشور سوچ پیدا کرنا اور سوچنا سکھاتا ہے ہم نے اس کی قدر کرنا چھوڑ دی ۔ جس نے ہماری سوچوں کو جلا بخشی ہے ،ہم نے اس کو ہیرو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔کتاب چھاپنے والا ، کتاب لکھنے والا پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ کتا ب پڑھنی چاہیے۔ ہمارے ہاں کتاب پڑھنے ، کتاب پروموٹ کرنے اور کتاب لکھنے والے کو عزت دینے کا کلچر نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں لکھنے والا شناخت چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسکول میں پڑھانے والا استاد ، کالج میں پڑھانے والاپروفیسر کب کتاب کی اہمیت سے آگاہ کرے گا۔معاشرے کے لیے کتاب کتنی ضروری ہے اس کا ادراک کس نے کروانا ہے؟ ایک سالانہ اُردو کانفرس کرا لینے سے کتاب کی اہمیت میں تبدیلی نہیں آتی۔ جب تک تعلیمی اداروں میں پڑھانے والا استاد بچوں کوغیر نصابی کتابوںسے روشناس نہیں کرائے گا تب تک بچوں میں علم کی پیاس پیدا نہیں ہوگی۔ جب تک دانشو ر جو معاشرے کی آکسیجن ہوتا ہے اس کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا تب تک نئی نسل میں علم سے محبت پیدا نہیں ہوگی۔ پاکستا ن کی بقا محفوظ ہاتھوں میں دینے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کو تعمیری لٹریچر سے روشناس کرایا جائے۔

تعلیمی نصاب تیار کرنے کے لیے قابل افراد پر مشتمل بورڈ ہوتا ہے جو بڑی محنت اور پلاننگ سے نصاب تیار کرتا ہے ۔ نصاب تیار کرنے کا مقصد قوم میں اتحاد پیدا کرنا ، اچھا ہیومن ریسورس تیار کرنا اور نوجوان نسل کوفائدہ مند شہری بنانا ہے۔1947ء سے لے کر آج تک پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں وہ چاہے فوجی ہوں یا سوِل، تعلیم کسی بھی حکو مت کی ترجیح اوّل نہیں رہی۔ تعلیم کے حوالے سے اس وقت ہمارے ملک میں کئی قسم کے سسٹم رائج ہیں۔ جس کے نتیجہ میں قوم متحد ہونے کی بجائے ہجوم بن گئی ہے۔کئی طرح کے سسٹم اور اتنی ہی قسم کے نصاب صرف نمبرز لینے اور ڈگریاں دینے کا ذریعہ ہیں ۔ نصاب کے ذریعے قوم میں جو اتحاد پیدا ہونا چاہیے اور جو تبدیلی آنی چاہیے وہ نہیں آرہی۔

تعلیمی میدان میں پرائیوٹایزیشن کے کلچر نے تعلیم سے اخلاقیات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اوراندھا اندھے کو راستہ دکھانے لگا ہے۔ ایک پی۔ ایچ۔ ڈی۔ پروفیسر جوخود اخلاقی طور پر مضبوط نہیں ہے وہ بچوں کی گرومنگ کیسے کرے گا۔والدین اگر اپنی ذمہ داری قبول کر لیں تو انقلاب آ سکتا ہے۔والدین سمجھتے ہیں کہ بچے کو تعلیمی ادارے زیورِ تعلیم سے آراستہ کر نے کے ساتھ ساتھ اِن کی اخلاقی تربیت بھی کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ والدین خود بچوں کی تربیت نہ کریں اور بچوں کی تربیت ہو جائے؟ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا سوال ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں سمارٹ فون کی شکل میں جو جدید ٹیکنالوجی آئی ہے یہی ہمارا ٹی وی ، یہی ہماری کتاب بلکہ یہی سب کچھ ہے۔ یہ صد ی جو گزر رہی ہے یہ کتا ب کی آخری صدی ہے اس کے بعد دنیا میں کتاب نہیں ہوگی۔ ساری دنیا ’’ای بکس‘‘ میں شفٹ ہو جائے گی۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کو بدلنے کے لیے ہمیں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہو گا۔ امریکہ اس وقت سُپر پاور ہے اس کے کامیاب ہونے کی کئی ساری وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے لوگوں نے اپنی دولت لائبریریوں اور تحقیق کرنے والے اداروں پر لگادی ۔حکومت کو سب سے پہلے اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ ایک آدمی پورے سسٹم کو نہیں ٹھیک کر سکتا۔ سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹیم کی ضرورت ہے جو سسٹم بنائے اور اس کو لے کر چلے۔ اور تعلیمی نظام کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آ پ نے پچاس سال کی پلاننگ کرنی ہے تو ا پنے ہتھیاروں کو بہتر بنائیں ،اگر سو سال کی پلاننگ کرنی ہے تو اپنی فصلوں کی پیداوار بہتر بنائیں اوراگر ہزار سال کی پلاننگ کرنی ہے تو پھر تعلیم کے نظام کو بہتر بنائیں۔

 

Introduction of the Author:

Qasim Ali Shah is a well-known motivational speaker, trainer, writer and educator. To date, he has recorded more than 500 videos, written articles and trained thousands of people including government officials, CSP officers and students. He is also the founder of Qasim Ali Shah Foundation.