دوست

دوست

ثوبیہ مہرین

بی ایس کاسمٹالوجی اینڈ ڈرماٹالوجی ڈیپارٹمنٹ آف اپلائیڈ ہیلتھ سائنسز

 

وہ گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں ٹھہری آسمان کو تک رہی تھی جس پر سے اب نیلاہٹ چھٹ رہی تھی ۔اس  نے  چہرے کے گرد سکارف اوڑھ رکھا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا  کہ وہ نماز پڑھ کے اٹھی ہے۔ عمر سے وہ اکیس سال کی معلوم ہوتی ہے۔ مسلسل آسمان کو تکتے ہوئے یہی سوچے جا رہی تھی کہ وہ کس قدر تنہا ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک کوئی بھی تو اسکا دوست نہیں رہا تھا۔

ریحانہ کے والد کی آمدنی محدودتھی۔ وہ  شروع سے ہی شاہانہ زندگی کے خواب ہی دیکھا کرتی تھی۔ عام سی شخصیت لئے جب وہ سکول جاتی تو بمشکل ہی کسی کی توجہ اس کی طرف جاتی۔ وہ ہمیشہ اپنی غربت کو ہی اس کی بڑی وجہ سمجھتی تھی اور ایک لحاظ سے یہ سچ بھی تھا۔ اس کی کلاس کی لڑکیاں یوں  لاپرواہی سے پیسہ لٹاتیں اور ریحانہ جیسی لڑکیوں کو حقارت سے دیکھتیں جیسے یہ مال عیش وعشرت اور جوانی ہمیشہ رہ جانی ہے ۔ ان کے چہرے پر موجود سکون سے ریحانہ کو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ عیش و عشرت مرنے کے بعد جب دوبارہ زندہ ہونگے تو ان کو واپس لوٹا دی جائے گی۔ مہنگے تحائف دینے، جنم دن یا پاس ہونے کی خوشی میں ایک دوسرے کو پارٹیاں دینے، مہنگے  ریسٹورینٹس میں جا کے کھانا کھانے کے لئے اسکے پاس کبھی پیسے نا ہوتے۔ چونکہ وہ بدلتے زمانے کے رواج نہیں اپنا سکی اسی لئے اس کی دوستی کسی سے جمی ہی نہیں۔                  اب وہ یونیورسٹی پہنچ چکی تھی اور یہ خوش فہمی بھی چھوڑ چکی تھی کہ شاید اب اسے کوئی مخلص دوست مل جائے۔

ریحانہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی عادی تھی ۔ ریحانہ نے آج سورۃ مریم وہاں سے پڑھنی تھی جہاں کل چھوڑی تھی۔ آیت نمبر77 ۔ جونہی اس نے پڑھنا شروع کیا اسکا دل زور سے دھڑکا۔

افرءیت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالاوولد۔

ترجمہ: کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد لازمی دی جائے گی۔

ریحانہ شل سی ہوگئی۔ اس نے جلدی سے اگلی آیت پڑھی۔

اطلع الغیب ام اتخذعندالرحمن عھدا۔

ترجمہ: کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟

ریحانہ کچھ سوچ نہیں پا رہی تھی۔ قرآن اس سے بات کر رہا تھا، وہ اس کے تمام زخموں پہ مرہم لگا رہا تھا۔ ریحانہ نے جب 80 آیت پڑھی تو ساری پہیلی سلجھ گئی۔

ونرثہ ما یقول و یا تینا فردا۔

ترجمہ: یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے اسی ہم اس کے بعد لے لیں گے۔ اور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔

ان آیات کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمروبن العاص (رضی اللہ عنہہ) کےوالد عاص بن وائل جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھے۔ ان کے ذمہ حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب (رضی اللہ عنہہ) نے ان سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جب تک تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام تو تو مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے تب بھی نہیں کروں گا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی  جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مال و اولاد سے نوازا جائے گا تو وہاں میں یہ رقم ادا کردوں گا( صحیح بخاری' کتاب البیوع' باب ذکر القین والحداد' و تفسیر سورۃ مریم مسلم' صفت القیامت' باب سؤال الیہود عن الروح) اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے یہ صرف اللہ اور اس کی آیات کا استہزا و تمسخر ہے۔

ریحانہ کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی تھی کہ یہ دکھاوے کے دوست ،ان کا ساتھ اور عیش ان کے ساتھ رہے گی۔  لیکن اب اس کی غلط فہمی دور ہو گئی تھی۔  وہ بار بار ان آیات کو پڑھتی جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو گر کر اس کے ٹوٹے وجود کو اندر سے جوڑ رہے تھے۔ اسے قرآن نے جواب دے دیا تھا کہ اس کا سچا دوست قرآن ہے، سچی راہ اسلام ہے۔ اب کوئی چاہے بھی تو ہر دنیاوی لذت اس کے آگے رکھ دے وہ محمدﷺ کے ساتھ کفر نہیں کرے گی کیونکہ اسے اس کے اپنے قرآن نے بتا دیا ہے کہ یہ سب اللہ واپس لے لے گا اور وہ بالکل اکیلی ہی اللہ کے سامنے حاضر ہوگی۔